ميرى پچيس سالہ بہن پيدائشى طور پر ہى دماغى مفلوج ہے جس كى بنا پر ہاتھ پاؤں بھى مفلوج ہيں اوربات چيت بھى نہيں كرسكتى اور خود كھا پى بھى نہيں سكتى اور نہ ہى بيت الخلاء جا سكتى ہے اسكى والدہ ہى اسے كھلاتى اور بيت الخلاء لے جاتى ہے.
عقلى اعتبار سے اسے ادراك ہے اور خوشى و غمى كو سمجھتى ہے اور وقت اور اشخاص كو بھى پہچانتى ہے اور قرآن مجيد بھى سنتى ہے.
جناب والا ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا اس پر نماز روزہ اور حج وغيرہ فرض ہيں يا نہيں ؟
وہ نہ تو وضوء كر سكتى ہے اور نہ ہى قرآن كى كوئى سورۃ حفظ كر سكتى ہے، بيٹھ بھى نہيں ميں نے اسے نماز كى تعليم دينے كى بہت كوشش كى ليكن نہ تو ركعات كى تعداد جانتى ہے بلكہ نماز ميں ادھر ادھر ديكھنے لگتى ہے اور بعض اوقات غير ارادى طور پر ہنسنے بھى لگتى ہے، كيا وہ روزہ ركھے يا كہ فديہ ادا كرے ؟
پيدائشى طور پر دماغى مفلوج پر نماز روزہ كى فرضيت كا حكم
سوال: 108464
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو معاملہ اور اس بچى كى حالت بالكل وہى ہے جو سوال ميں بيان ہوئى ہے، اور يہ بہن نماز كے معانى اور كيفت كا ادراك نہيں كر سكتى، اور نہ ہى روزے كى حقيقت كو سمجھتى ہے تو اس كى عقل ميں خلل ہونے كى بنا پر وہ مكلف نہيں، كيونكہ عقل نہ ہونے كى بنا پر اس سے تكليف ساقط ہو جائيگى.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تين قسم كےافراد سے قلم اٹھا ليا گيا ہے: سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور پاگل و مجنون سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4403 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1423 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3432 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2041 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور جب وہ مكلف ہى نہيں تو پھر اس پر روزے كے بدلے ميں كھانا كھلانا واجب نہيں ہوگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب