بہت سارى مجلسوں ميں ممبران كو مختلف موضوع ميں شركت كى دعوت دى جاتى ہے كہ انعامى مقابلہ ميں شركت كے ليے نام لكھائيں اور مقابلہ كى مدت كے دوران نماز پنجگانہ مسجد ميں ادا كريں اور يہ مقابلہ ان شاء اللہ ايك ہفتہ تك رہے گا اس كو مكمل كرنے كے ليے مقابلہ ميں حصہ لينے والا شخص ايك خاكہ ميں رنگ بھرتا ہے جس كى سات شاخيں ہيں جو ہفتہ كے سات يوم كے قائم مقام ہيں اور ہر شاخ كے پانچ پتے ہيں، جسے كميٹى پوائنٹ كے ليے اور كامياب ہونے والے كے ليے استعمال كرے گى جو نمازوں كى جگہ ہے، جب آپ نماز مسجد ميں ادا كريں تو ايك پتہ ميں سبز رنگ بھر ديں، اور جب نماز باجماعت ادا نہيں كر سكے تو پتہ ميں زرد رنگ بھر ديں، پھل خيرى عمل كے ليے ہے، اور پوائنٹ ميں شمار نہيں ہو گا، اس طرح كے مضامين كا حكم كيا ہے، اور كيا يہ معاملہ بدعت شمار ہو گا ؟
محاسبہ نفس كے شڈول ميں شركت كرنے كا حكم
سوال: 109125
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسلمان اپنے رب كى عبادت كتاب عزيز ميں اللہ كے حكم اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع كرتے ہوئے بجا لاتا ہے، اور جو عبادت ہو وہ بدنے اور اس كے رب عزوجل كے مابين ہے، اس پر لوگوں كے مطلع ہونے كى ضرورت نہيں كہ لوگ اسے ديكھيں كيا كر رہا ہے، اور اس نےكوتاہى كيوں كى ہے ؟
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ سوال ميں وارد شدہ فعل اور اس جيسے دوسرے افعال شريعت كے موافق نہيں؛ اس كى كئى وجوہات ہيں:
1 ـ يہ سلف امت كے طريقہ پر نہيں، اور نہ ہى كسى صحابى نے ايسا كيا اور نہ ہى ان كے بعد كسى نے بلكہ يہ اس زمان كى بدعت ہے.
2 ـ مسلمان اپنے رب كے ليے نماز ادا كرتا ہے، اس ليے نماز ادا نہيں كرتا كہ مخلوق اسے انعام سے نوازے.
3 ـ اس طرح كا شڈول ضعيف و كمزور نفس والوں كے ليے كذب و جھوٹ كا دروازہ كھولتا ہے، ان ميں سے كوئى شرم كريگا كہ اس كے مسلمان بھائى اسے كوتاہى كرنے والا ديكھيں، تو اسطرح وہ جھوٹ و كذب ميں پڑ جائيگا.
4 ـ اس مقابلہ ميں شريك ہونے والے ممبران ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى دوڑ ميں شامل ہونا عمل ميں فخر و تعجب كرنے كا دروازہ كھولےگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
بعض افراد فرضى اور سنت نمازوں كے بارہ ميں محاسبہ نفس كرنے كے ليے ايك چارٹ بناتے ہيں، اس چارٹ ميں ہر نماز كے آگے دو خانے ايك فرض اور دوسرا سنتوں كے ليے بنايا جاتا ہے اور ہر نماز باجماعت ادا كرنے كى صورت ميں اس كے پوائنٹ لكھے جاتے ہيں، اور جب سنت مؤكدہ ادا كرے تو بھى اس كے خانہ ميں پوائنٹ لكھتے ہيں، اور اگر ادا نہ كرے تو بھى اس كے خانہ ميں پوائنٹ درج كرتے ہيں.
اور ہفتہ مكمل ہونے پر پوائنٹ جمع كيے جاتے ہيں ايك ماہ كے ليے چار چارٹ بنائے جاتے ہيں، يہ لوگ كہتے ہيں كہ اس وسيلہ سے نماز پنجگانہ اور سنت كى ادائيگى پر پابندى ہوتى ہے اس طريقہ كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
كيا يہ مشروع ہے يا نہيں، اور اس طرح كے چارٹ نشر اور شائع كرنے ميں آپ كى رائے كيا ہے، اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” يہ طريقہ مشروع نہيں بلكہ بدعت ہے، اور ہو سكتا ہے اس طرح دل سے اللہ كى بندگى كا معنى و مفہوم ہى خارج ہو جائے اور سارى عبادات روٹينى بن كر رہ جائيں جيسے وہ كہتے ہيں.
صحيحين ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں داخل ہوئے تو دو ستونوں كے درميان رسى بندھى ہوئى ديكھى تو آپ نے دريافت فرمايا يہ كيا ہے ؟
انہوں نے جواب ديا: يہ زينب رضى اللہ تعالى عنہا كى رسى ہے جب وہ تھك جاتى ہے يا اكتاہٹ محسوس كرتى ہيں تو اس رسى كو پكڑ ليتى ہيں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اسے كھول دو، تم ميں سے كوئى ايك اس وقت تك نماز ادا كرے جب وہ چست ہو، اور جب اكتا جائے يا تھك جائے تو بيٹھ جائے “
پھر ہو سكتا ہے بعض اوقات انسان كو اصل ميں غير افضل اعمال كسى سبب كى بنا پر افضل پيش آ سكتا ہے، اگر وہ آنے والے كسى مہمان كى خدمت ميں لگ جائے اور اس كى ظہر كى سنت مؤكدہ رہ جائيں تو يہ اس كے ليے سنت مؤكدہ كى ادائيگى ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے.
ميں اپنے نوجوانوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ عبادت ميں چستى كے حصول كے ليے اس طرح كے طريقے اور اسلوب اختيار مت كريں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس طرح كے اسلوب اختيار كرنے سے بچنے كا كہا ہے، اور اپنى سنت اور سنت خلفاء راشدين كى اتباع و پيروى كرنے كى ترغيب دلائى اور بدعات سے اجتناب كرنے كا حكم ديا ہے، اور بيان كيا ہے كہ ہر بدعت گمراہى ہے، چاہے اس بدعت كو ايجاد اور عمل كرنے والے اچھا ہى سمجھتے ہوں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ ميں يہ شامل نہ تھا اور نہ ہى خلفاء راشدين اور صحابہ كرام اس طرح كرتے تھے ” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 111 ).
اور شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ہم چھ دوست ہر پندرہ يوم كے بعد كسى ايك كے گھر جمع ہو كر ايك پروگرام كرتے ہيں جس ميں قرآن مجيد اور اربعين نووى اور منھاج المسلم پڑھتے ہيں اور گھر والے كى جانب سے كچھ وعظ و نصيحت ہوتى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام كے متعلق حالات پڑھتے ہيں، اس پروگرام كى ابتدا قرآن مجيد سے اور اختتام دعا سے ہوتا ہے.
اور اس پروگرام ميں يہ بھى شامل ہے كہ ہر ايك نے ايك ورقہ پر كرنا ہوتا جسے ہم نے ايك دوسرے سے آگے نكلنے كا چارٹ كے نام سے موسوم كيا ہے، اس ميں قرآن كا ورد اور مسجد ميں نماز پنجگانہ كى ادائيگى، اور روزہ، صلہ رحمى شامل ہے، جب ہم اس چارٹ كو پر كرتے ہيں تو اس كے نتائج اچھے نكلتے ہيں، اور جب پر نہ كريں تو نتائج اچھے نہيں ہوتے، بلكہ ہم سے قرآن مجيد كى تلاوت ميں كوتاہى ہو جاتى ہے، لہذا اس طرح كے چارٹ كا شريعت ميں كيا حكم ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
” الحمد للہ:
مجھے ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ چارٹ بنانا اور ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كے ليے اس كى شقوں كے مطابق عمل كرنا بدعت ہے؛ كيونكہ يہ آپس ميں فخر اور اعجاب عمل پر مشتمل ہے، اور اسى طرح اس ميں ايسے عمل كا اظہار بھى پايا جاتا ہے جسے خفيہ ركھنا افضل ہے؛ اس ليے كہ صدقہ اور تلاوت قرآن يا ذكر جيسے عمل خفيہ ركھنا رياء كارى سے زيادہ دور ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اپنے پروردگار سے دعا كيا كرو گڑ گڑا كر كے بھى اور چپكے چپكے بھى الاعراف ( 55 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
يہ تيرے پروردگار كى اس مہربانى كا ذكر جو اس نے اپنے بندے زكريا پر كي تھى، جبكہ اس نے اپنے رب سے چپكے چپكے دعا كى تھى مريم ( 2 – 3 ).
اور ان سات بندوں ميں سے ايك بندے كے متعلق بھى يہى ہے جسے اللہ تعالى يوم قيامت اپنا سايہ نصيب كرينگے حديث ميں يہ بيان ہوا ہے:
” ايك وہ شخص جو صدقہ كرے اور اسے خفيہ ركھے حتى كہ اس كا باياں ہاتھ بھى نہ جانے كہ اس كے بائيں ہاتھ نے كيا صدقہ كيا ہے ”
اس ليے يہ چاہيے كہ ايك دوسرے كو اطاعت و نوافل كى نصيحت كثرت سے كى جائے، اور ہر شخص وہ عمل كرے جو اس كے آسان وميسر ہو جو اس كے اور اس كے پروردگار كے درميان ہو، تو اس سے تقوى اور نيكى و بھلائى ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون حاصل ہو گا، اور عمل ايسى اشياء سے بھى محفوظ و سلامت رہے گا جس سے عمل كے ضائع ہونے كا خدشہ ہے، يا پھر اس كا اجروثواب كم ہو جاتا ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور وہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے. واللہ تعالى اعلم ” انتہى
http://www.islamway.com/?iw_s=Fatawa&iw_a=view&fatwa_id=8762
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب