ميرے ايك دوست نے اپنى بيوى كو تيسرى طلاق دے دى ہے تو كيا ميرے ليے جائز ہے كہ اس كى بيوى سے شادى كر كے اسے طلاق دے دوں تا كہ وہ اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال ہو جائے ؟
نكاح حلالہ حرام اور باطل ہے
سوال: 109245
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب كوئى شخص اپنى بيوى كو تيسرى طلاق بھى دے دے تو وہ اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے اور اس وقت حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى اور خاوند سے نكاح نہ كر لے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے البقرۃ ( 230 ).
اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو، چنانچہ مؤقت يعنى وقتى اور كچھ مدت كے ليے نكاح ( جسے نكاح متعہ بھى كہا جاتا ہے ) يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے ليے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا ( يعنى نكاح حلالہ ) يہ دونوں حرام اور باطل ہيں، عام اہل علم كا يہى قول ہے، اور اس سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہو گى.
ديكھيں: المغنى ( 10 / 49 – 50 ).
نكاح حلالہ كى حرمت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح احاديث سے ثابت ہے.
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
المحلل: وہ شخص ہے جو حلالہ كرتا ہے تا كہ بيوى اپنے خاوند كے ليے حلال ہو جائے.
المحلل لہ: اس كا پہلا خاوند.
اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور عبدالرزاق نے مصنف عبد الرزاق ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:
" اللہ كى قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا "
مصنف عبدالرزاق ( 6 / 265 ).
يہ سب برابر ہے اور كوئى فرق نہيں كہ عقد نكاح كے وقت اس مقصد كى صراحت كى گئى ہو اور اس پر شرط ركھى گئى ہو كہ جب اس نے اسے اس كے پہلے خاوند كے ليے حلال كر ديا تو وہ اسے طلاق دے گا، يا اس كى شرط نہ ركھى ہو، بلكہ انہوں نے اپنے دل ميں ہى يہ نيت كر ركھى ہو، يہ سب برابر ہے.
امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:
ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے:
نہيں، نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے، اگر وہ تو تجھے اچھى لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو، اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو.
وہ بيان كرتے ہيں: ہم تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.
اور ان كا كہنا تھا: وہ زانى ہى رہينگے چاہے بيس برس تك اكٹھے رہيں.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
ايك شخص نے كسى عورت سے شادى كى اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا:
يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے"
اس بنا پر آپ كے ليے اس عورت سے پہلے خاوند كے ليے حلال كرنے كى نيت سے نكاح كرنا جائز نہيں، اور ايسا كرنا كبيرہ گناہ ہو گا، اور يہ نكاح صحيح نہيں بلكہ زنا ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب