كيا مسلمان شخص كے ليے حكايات و شركيہ افكار پر مشتمل ( ہركوليس ) جيسى فلميں ديكھنا جائز ہيں ؟
شركيہ اعتقادات يا علم غيب كے دعوى پر مشتمل فلميں ديكھنے كا حكم
سوال: 1107
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جن فلموں ميں شرك بيان كيا گيا ہو، انہيں ديكھنا، انہيں سننا جائز نہيں، بلكہ مسلمان شخص كے دل كے ليے يہ بہت زيادہ خطرناك ہيں، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كے ہاتھ ميں تورات كا ايك ورق ديكھا تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم ناراض ہوئے اور انہيں اس ورق كو تلف كرنے كا حكم ديا.
بہت سارے مسلمان ايسے ہيں جن كے پاس ان فلموں ميں پانى جانے والى گمراہيوں اور غلط چيزوں كو جاننے اور منكشف كرنے كى اہليت و صلاحيت نہيں، اور نہ ہى ان كے پاس علم اتنا علم ہے كہ وہ اسے جان سكيں كتنے ہى ايسے فلم بين ہيں جن كے دلوں ميں شبہات پيدا ہوئے اور ان كا عقيدہ اور ايمان متزلزل ہو گيا.
بلكہ بعض تو باطل عقيدہ اختيار كر بيٹھے، اور ان فلموں كو ديكھ كر بعض لوگوں كے دلوں ميں تو خبيث اور گندا زہر سرايت كر گيا، اور اس كے علاوہ ان فلموں ميں كئى قسم كى اور بھى حرام چيزيں پائى جاتى ہيں مثلا موسيقى اور عورتوں كى تصاوير وغيرہ.
اور يہ بات مشاہدہ ميں آئى ہے كہ ان آخرى ايام ميں ايسى فلميں بھى بنائى گئى ہيں، اور نشر كى گئى ہيں جس ميں محرف شدہ تورات و انجيل كے عقائد، يا دجالوں اور شعبدہ بازوں كى نبوت كے باطل دعوے كيے گئے ہيں، اور يورپ ميں ان كو رواج ملا ہے، جہاں دين صحيح نہ ہونے كے نتيجہ ميں روحانى خلاء اور فراغت پيدا ہوئى ہے.
اور يورپ ميں موجود بعض مسلمان بھى اس سے متاثر ہو كر ان فلموں كو ديكھنے لگے ہيں، اس ليے مسلمان كو اپنے رب سے ڈرنا چاہيے، اور ان كفريہ فلموں كو ديكھنے سے اجتناب كرنا چاہيے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كيونكہ كان، اور آنكھ اور دل، ان ميں سے ہر ايك سے پوچھ گچھ كى جانے والى ہے الاسراء ( 36 ).
اور جب وہ تفريح اور آرام كرنا، اور كچھ سننا چاہے تو وہ ان اشياء سے كرے جو شرعا حلال ہيں.
اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد