كيا درج ذيل امور بدعت شمار ہوتے ہيں:
1 ـ آٹھ ركعت سے زيادہ تراويح ادا كرنا.
2 ـ معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے دن روزہ ركھنا ( جو شخص يہ اعتقاد ركھتا ہو كہ متعين تاريخ معراج كا دن ہے، اور جو شخص يہ جانتا ہو كہ احاديث ميں اس كى كوئى متعين تاريخ نہيں، ليكن وہ اللہ كى رضا كے ليے اس دن روزہ ركھے ).
3 ـ شب برات كا روزہ ركھنا.
4 ـ كيا يہ بدعت نہيں كہ كوئى شخص يہ كہے كہ شب برات كا روزہ ركھنا نفلى روزہ ہے ؟
بعض مسلمان كہتے ہيں كہ اگر ہم آٹھ تروايح سے زيادہ ادا كريں اور مختلف ايام مثلا " شب برات " اور معراج النبى اور ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا روزہ ركھيں تو يہ بدعت نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ عبادات سكھائى ہيں، تو يہ بتائيں كہ نماز كى ادائيگى اور ( حرام كردہ ايام كے علاوہ ) كسى بھى دن روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے، اور اس كا حكم كيا ہے ؟
5 ـ نماز تسبيح ادا كرنا ( كہ ہر ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جائے ) كيسا ہے ؟
شب برات اور معراج كا روزہ ركھنا
سوال: 11086
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1 ـ آٹھ ركعت سے زيادہ تروايح ادا كرنا اس وقت بدعت شمار نہيں ہو گى جب كچھ راتوں كو زيادہ ركعات كے ساتھ مخصوص نہ كيا جائے مثلا آخرى عشرہ، كيونكہ ان راتوں ميں بھى اتنى ہى ركعات ادا كى جائيں جتنى پہلى راتوں ميں ادا كى جاتى ہيں، بلكہ آخرى عشرہ ميں تو ركعات لمبى كرنا مخصوص ہے، ليكن سنت يہى ہے كہ آٹھ ركعات كى جائيں يہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ثابت ہے.
2 ـ جس دن معراج النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا اعتقاد ركھا جاتا ہے اس دن كا روزہ ركھنا جائز نہيں، بلكہ يہ بدعت ميں شامل ہو گا, لہذا جس نے بھى اس دن كا روزہ ركھا چاہے بطور احتياط ہى يعنى وہ يہ كہے كہ اگر يہ حقيقتا معراج والا دن ہے تو ميں نے اس كا روزہ ركھا، اور اگر نہيں تو يہ خير و بھلائى كا عمل ہے اگر اجر نہيں ملے گا تو سز بھى نہيں ملى گى، تو ايسا كرنے والا شخص بدعت ميں داخل ہو گا اور وہ اس عمل كى بنا پر گنہگار اور سزا كا مستحق ٹھريگا.
ليكن اگر اس نے اس دن كا روزہ تو ركھا ليكن اس ليے نہيں كہ وہ معراج كا دن ہے بلكہ اپنى عادت كے مطابق ايك دن روزہ ركھتا اور ايك دن نہيں، يا پھر سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھتا تھا اور يہ اس كى عادت كے موافق آ گيا تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ اس نيت يعنى سوموار يا جمعرات يا جس دن كا روزہ ركھتا تھا سے روزہ ركھ لے.
3 ـ 4 ـ معراج كے دن روزہ ركھنے كے بارہ ميں كلام بھى شب برات كا روزہ ركھنے كى كلام جيسى ہى ہے، اور جو مسلمان يہ كہتا ہے كہ معراج يا شب برات كا روزہ بدعت نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں عبادات سكھائى ہيں تو حرام كردہ ايام كے علاوہ ميں روزہ ركھنے ميں كيا غلطى ہے ؟
ہم اس كے جواب ميں يہ كہيں گے:
جب ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ عبادات سكھائى ہيں تو معراج وغيرہ كے روزے كى تخصيص كى دليل كہاں ہے، اگر ان دونوں ايام كے روزے ركھنے كى مشروعيت كى دليل ہے تو پھر كوئى شخص بھى ان كو بدعت كہنے كى جرات اور استطاعت نہيں ركھتا.
ليكن ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ بات كہنے والے كا مقصد يہ ہے كہ روزہ مجمل طور پر عبادت ہے اس ليے اگر كوئى شخص روزہ ركھتا ہے تو اس نے عبادت سرانجام دى اور جب يہ ممنوعہ ايام مثلا عيد الفطر اور عيد الاضحى كے علاوہ ميں ہو تو اسے اس كا ثواب حاصل ہو گا، اس كى يہ كلام اس وقت صحيح ہو گى جب روزہ ركھنے والا كسى دن كو روزہ كى فضيلت كے ساتھ مخصوص نہ كرے مثلا معراج يا شب برات، يہاں اس روزے كو بدعت بنانے والى چيز اس دن كے ساتھ روزہ مخصوص كرنا ہے كيونكہ اگر ان دو ايام ميں اگر روزہ ركھنا افضل ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى ان ايام كے روزے ركھتے، يا پھر ان ايام كا روزہ ركھنے كى ترغيب دلاتے.
اور يہ معلوم ہے كہ صحابہ كرام ہم سے خير و بھلائى ميں آگے تھے، اگر انہيں ان ايام كے روزہ كى فضيلت كا علم ہوتا تو وہ بھى ان ايام كا روزہ ركھتے، ليكن ہميں اس كے متعلق صحابہ كرام سے كچھ نہيں ملتا، اس سے معلوم ہوا كہ يہ بدعت اور نئى ايجاد كردہ چيز ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
يعنى وہ عمل اس پر رد كر ديا جائيگا، اور ان دو ايام كا روزہ ركھنا ايك علم ہے، اور ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے اس پر كوئى حكم اور امر نہيں ملتا تو پھر يہ مردود ہے.
5 – نماز تسبيح نفل ہے: اس پر كلام بھى بالكل پہلى كلام كى طرح ہى ہے، كہ جس عبادت پر كوئى شرعى دليل نہيں ملتى تو وہ مردود ہے، اور اس ليے كہ نہ تو كتاب اللہ ميں اور نہ ہى سنت رسول صلى اللہ ميں كوئى ايسى نماز ملتى ہے جس كى ايك ركعت ميں سو بار سورۃ الاخلاص پڑھى جاتى ہو تو پھر يہ نماز بدعت ہوئى اور ايسا كرنے والے پر اس كا وبال ہو گا .
ماخذ:
الشیخ سعد الحمید