ايك نوجوان لڑكے ساتھ ميرا تعارف ہوا، اس نے مجھے دھوكہ ديا كہ ميرے ساتھ شادى كرنا چاہتا ہے، ليكن ابھى وہ اس كا اعلان نہيں كر سكتا، اور نہ ہى ميرے گھر والوں كے سامنے جا كر ميرا رشتہ طلب كر سكتا ہے، ہم نے عرفى شادى كر لى اور اس كے كاغذات بھى لكھ ليے، ليكن پھر وہ مجھے چھوڑ كر فرار ہو گيا، تو كيا ميں اب بالفعل اس كى بيوى ہوں يا نہيں ؟
عرفى شادى كرنے كے بعد بيوى چھوڑ كر فرار ہونا
سوال: 111797
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اب تك ہم اس طرح كے افسوس ناك واقعات سن رہے ہيں تو كب تك ہمارى بيٹياں اس سے غافل رہينگى كہ اس طرح كہ مجرم قسم كے لوگ كيا چاہتے ہيں ؟
ہر لڑكى يہى كہتى نظر آتى ہے كہ ميں تو اس پر مكمل بھروسہ ركھتى ہوں، ميرا دل اس پر مطمئن ہے، يہ دوسرے نوجوانوں كى طرح نہيں، پھر جب وہ نوجوان جو چاہتا تھا اس پر عمل كر كے اسے چھوڑ كر واپس بھاگ جاتا ہے.
ايسے دسيوں واقعات و حادثات بلكہ سينكڑوں اور ہزاروں واقعات ہيں جن ميں اس طرح كى افسوسناك اشياء بار بار ہوتى ہيں اور اب تك ايسا ہى ہوتا چلا آ رہا ہے.
شريعت اسلاميہ كا يہ حكم حكمت والا تھا جب اس نے عورت كو بےپردگى سے منع كرتے ہوئے اپنى زينت و زيبائش غير محرم مردوں كے سامنے ظاہر كرنے سے منع كيا.
اور پھر شريعت اسلاميہ كى اس حكم ميں بھى بہت بڑى حكمت پائى جاتى تھى كہ اس نے مرد و عورت كو اختلاط سے منع كيا جس ميں شر و برائى كے علاوہ كچھ نہيں.
اور شريعت اسلاميہ كا يہ حكم بھى بہت بڑى حكمت ركھتا ہے جب اس نے عورت كو كسى اجنبى مرد سے بغير كسى ضرورت و سبب كے لہك لہك كر كلام كرنے سے منع فرماياہے.
اور شريعت اسلاميہ اس ميں حكيم تھى جب اس نے غلط قسم كے افراد اور دل ميں مرض ركھنے والوں كے سامنے راہ بند كر ديا اور عورت كو پردے ميں چھپ كر رہنے اور مردوں كے جمع ہونے والى جگہوں سے حتى الامكان دور رہنے كا حكم ديا اور اجنى مرد كے ليے اجنبى عورت كو چھونا حرام قرار ديا اور اسى طرح اس سے خلوت كرنا بھى حرام كيا، اور عورت كے ليے مرد سے لہك لہك كر اور نرم لہجہ ميں بات كرنا حرام كيا، اس كے علاوہ اور بھى بہت سارے حكم ہيں.
يہ سب حكم عورت كى عفت و عصمت كى حفاظت كے ليے ہيں، اور اسى طرح معاشرہ ميں خاندانوں كى فحش اور رذيل كاموں سے حفاظت كے ليے يہ احكام ديے تا كہ معاشرے عفت و عصمت اور شرم و حياء عام ہو.
اور جب عورت نے ان سب احكام كى مخالفت كى تو وہ ان بھيڑيوں كا شكار ہو گئيں جو نہ تو اللہ كى حرمت كا خيال كرتے ہيں اور نہ ہى انہيں ايسے غلط كام كرنے سے دين روكتا ہے اور نہ اخلاق، پھر آخر ميں عورت ہى نادم ہوتى ہے… ليكن اب پچھتائے كيا ہوت جب چڑياں چگ گئيں كھيت، وقت گزر جانے كے بعد پچھتانے كا كوئى فائدہ نہيں، كيونكہ يہ وقت ايسا ہے جس ميں گزرى ہوئى چيز كا واپس آنا ممكن نہيں.
شريعت كى اس ميں بھى عظيم حكمت تھى جب اس نے عورت كو خود اپنى شادى كرنے سے روكا، بلكہ اس كى شادى كے ليے ولى كى شرط ركھى كہ ولى كے بغير وہ شادى نہيں كر سكتى كيونكہ اس كا ولى اس كے ليے مناسب خاوند اختيار كرنے ميں زيادہ قادر ہے، تا كہ عورت كو دھوكہ نہ ہو، اور مجرم قسم كے لوگ عورت سے نہ كھيل سكيں.
اور پھر ولى كے بغير عورت كى شادى پر نبى كريم صلى اللہ عليہ نے حكم لگايا كہ يہ شادى باطل ہے، اسى كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے “
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1840 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر جب اس شادى ميں ايك دوسرے كو يہ نصيحت كى گئى ہو كہ اس شادى كو خفيہ ركھنا ہے كسى كو بتانا نہيں اور نہ ہى اس كا اعلان ہوا ہو، تو يہ وہ زنا ہے جس ميں كوئى شخص بھى شك و شبہ نہيں ركھتا.
صرف ايك ورق پر لكھنا ہى كافى نہيں، كيونكہ اس ورق كى كوئى قدر و قيمت نہيں، اور نہ ہى يہ كسى حرام چيز كو حلال كر سكتا ہے.
چنانچہ جسے لوگ ” عرفى نكاح ” كا نام ديتے ہيں اور يہ ولى كے علم اور گواہوں كے بغير ہوتا ہے، نہ ہى اس كا اعلان ہو تو يہ باطل ہے، اور يہ زنا ہے نكاح نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور وہ سرى اور خفيہ نكاح جسے چھپانے كى وصيت كى جاتى ہے اور اس پر كوئى گواہ بھى نہيں ہوتا، يہ عام علماء كے ہاں باطل ہے، اور زنا كى جنس سے تعلق ركھتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے علاوہ اور عورتيں تمہارے ليے حلال كى گئيں ہيں كہ اپنے مال كے مہر سے تم ان سے نكاح كرنا چاہو برے كام سے بچنے كے ليے نہ كہ شہوت رانى كے ليے النساء ( 24 ).
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 33 / 158 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
” اور جب عورت ولى اور گواہوں كے بغير نكاح كرے اور وہ شادى كو خفيہ ركھيں، تو علماء كرام كے اتفاق كے مطابق يہ نكاح باطل ہے، بلكہ علماء كے ہاں تو ” ولى كے بغير نكاح نہيں ہے ” اور ” جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے ”
اور يہ دونوں ہى روايت كے الفاظ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہيں.
اور كسى ايك سلف رحمہ اللہ كا قول ہے كہ:
” دو گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا ”
امام ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد رحمہم اللہ كا يہى مسلك ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ نكاح كے اعلان كو واجب قرار ديتے ہيں، اور سرى اور خفيہ نكاح زانى عورتوں كے نكاح كى طرح ہے ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 102 – 103 ).
چنانچہ اس بنا پر؛ جو كچھ آپ دونوں كے درميان ہوا وہ شرعى نكاح نہ تھا، اور نہ ہى آپ اس شخص كى بيوى ہيں.
اور عرفى نكاح كا حكم سوال نمبر (45513 ) اور (45663 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور سوال نمبر (7989 ) كے جواب ميں ولى كے بغير نكاح باطل ہونے كے دلائل بيان ہوئے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور آخر ميں ہم يہى كہينگے كہ: آپ اللہ تعالى كے ہاں توبہ كريں اور جو كچھ ہو چكا اس پر نادم ہوں، اور آئند آيسا نہ كرنے كا پختہ عزم كريں، اور عمل كى اصلاح اور اللہ كى شريعت پر استقامت كا عزم كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے معاصى و گناہ سے توبہ كرنے اور اپنے اعمال كى اصلاح كرنے والے شخص كى توبہ قبول كرنے اور بخشش كا وعدہ كيا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو كوئى بھى اپنے ظلم كے بعد توبہ كرے اور اصلاح كر لے تو يقينا اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كرتا ہے، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے المآئدۃ ( 39 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور يقينا ميں بہت بخشنے والا ہو اس شخص كو جو توبہ كرتا ہے اور ايمان لاتا اور عمل صالحہ كرتا اور پھر راہ راست اختيار كرتا ہے طہ ( 82 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توبہ كى توفيق نصيب فرمائے اور آپ كى توبہ قبول كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات