ايك روز ميں نے اپنے ساتھ كام كرنے والے ملازمين كى دعوت كى اور دوپہر كے كھانے پر بلايا، جب وہ آئے اور ميں نے ان كے سامنے كھانا لگايا جس ميں كوئلوں پر بھنى ہوئى مرغى بھى تھى، اور ہم نے اسے گھر ميں تيار كيا تھا ان ميں سے ايك شخص ـ جو استقامت ميں معروف ہے ـ نے اس كے متعلق مجھ سے دريافت كيا آيا يہ مرغى ديسى ہے يا كہ كسى باہر كے ملك سے درآمد شدہ ؟
تو ميں نے اسے بتايا كہ يہ باہر سے درآمد شدہ ہے اور ميرے خيال ميں فرانس كى ہے، تو اس نے وہ مرغى نہيں كھائى، ميں نے اس سے دريافت كيا تو وہ جواب دينے لگا: يہ حرام ہے.
ميں نے اسے كہا: آپ كو كس طرح پتہ ہے ؟
تو اس نے جواب ديا: ميں نے بعض علماء كرام كو يہ كہتے ہوئے سنا ہے..
برائے مہربانى آپ اس كے متعلق صحيح شرعى حكم واضح كريں ؟
گوشت اور مرغى كے ذبح كى كيفيت كے متعلق سوال نہيں كرنا چاہيے
سوال: 111868
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
غير اسلامى ممالك جہاں اہل كتاب يعنى يہود و نصارى خود ذبح كرتے ہوں وہ گوشت كھانا جائز ہے، اور ذبح كرنے كى كيفيت كے متعلق دريافت نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى يہ سوال كرنا چاہيے كہ آيا انہوں نے بسم اللہ پڑھى ہے يا نہيں ؟
اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو خيبر ميں ايك يہودى عورت نے بكرى ہديہ كى تھى، اور يہودى نے كھانے كى دعوت دى تو آپ نے وہ بھى كھايا جس ميں متغير چربى بھى شامل تھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سوال نہيں كيا كہ انہوں نے اسے كيسے ذبح كيا ؟ اور آيا انہوں نے اس پر بسم اللہ پڑھى تھى يا نہيں ؟
صحيح بخارى ميں حديث ہے:
" كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كرنے لگے: كچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہيں اور ہميں يہ علم نہيں كہ آيا اس پر بسم اللہ پڑھى گئى ہے يا نہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بسم اللہ پڑھ كا كھا لو "
ميں نے عرض كيا: وہ كفر چھوڑ كر نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، يعنى اب تك وہ اسلام ميں نئے ہيں اور انہيں علم نہيں كيا آيا وہ ( ذبح كرتے وقت ) بسم اللہ پڑھتے يا نہيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بسم اللہ پڑھ كر كھا ليا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2057 ).
اس حديث ميں دليل ہے كہ اگر تصرف كرنے والا شخص معتبر ہو تو واقع كى كيفيت كے متعلق سوال نہيں كرنا چاہيے، اور يہ شرع كى حكمت و آسانى ہے؛ كيونكہ اگر لوگوں سے يہ مطلوب ہو كہ وہ صحيح التصرف كے متعلق بھىشروط كا پيچھا كريں تو اس ميں مشقت و حرج پيدا ہو گا، جو شريعت كو حرج اور مشقت كى شريعت بنا كر ركھ ديگى.
ليكن اگر ذبح كردہ گوشت كسى ايسے ملك سے آيا ہو جہاں ايسے لوگ ذبح كرتے ہوں جن كا ذبح حلال نہيں مثلا مجوسى اور بت پرست اور بے دين قسم كے لوگ جن كا كوئى بھى دين نہيں تو ايسا گوشت كھانا حلال نہيں اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے غير مسلموں ميں سے صرف اہل كتاب كا كھانا مباح كيا ہے، اور اہل كتاب يہودى اور نصارى ہيں.
اور اگر ہميں شك ہو كہ ذبح كرنے والا ان افراد ميں سے ہے جن كا ذبح كردہ حلال ہے، يا ان افراد ميں سے جن كا ذبح كردہ حلال نہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں. ( يعنى اگر وہاں كے اكثر باشندے وہ ہوں جن كا ذبح كردہ حلال ہے ).
فقھاء رحمہم اللہ كا كہنا ہے:
" اگر كوئى ذبيحہ كسى ايسى جگہ پڑا ہوا ملے جہاں كے اكثر لوگ ايسے ہوں جن كا ذبح كردہ حلال ہو تو وہ حلال ہے "
ليكن اس حالت ميں اسے استعمال كيا جائے جس ميں شك نہ ہو.
اسى طرح يہ ہے:
اگر كسى ايسے شخص كى جانب سے گوشت آئے جن كا ذبح كردہ حلال ہے، اور ان ميں سے كچھ شرعى طريقہ پر ذبح كرتے ہوں جس ميں وہ تيز دھار آلے سے جانور كا خون بہائيں نہ كہ اسے ناخن اور دانت سے، اور بعض غير شرعى طريقہ پر ذبح كرتے ہوں، ليكن اكثر لوگ شرعى طريقہ پر ذبح كريں؛ تو اكثريت پر عمل كرتے ہوئے اسے كھانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن ورع اور تقوى اسى ميں ہے كہ اس سے اجتناب كيا جائے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام ( 255 – 256 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب