سوال: کیا عمر رسیدہ خاتون کیلئے اپنا چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے کھولنا جائز ہے؟
بوڑھی خواتین کا غیر محرم کے سامنے چہرہ کھول کر رکھنا
سوال: 111940
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جی ہاں! اللہ تعالی نے عمر رسیدہ خواتین کیلئے اپنا چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے کھولنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ فتنے کا باعث بننے والی زینت کا اظہار نہ ہو، لہذا زرق برق لباس نہ پہنے، اور زیب و زینت کیلئے میک اپ مت کرے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)
ترجمہ: اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں وہ اگر اپنی چادریں رکھ دیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم اگر وہ [پردہ کر کے] عفت حاصل کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سنتا، جانتا ہے۔ [النور:60]
ابو بکر جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں: فرمانِ باری تعالی : (وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا) [النور:60] کے بارے میں ابن مسعود، اور مجاہد رحمہما اللہ کہتے ہیں اس سے مراد ایسی خواتین ہیں جو کہ نکاح کی رغبت نہیں رکھتیں، اور ” ثِيَابَهُنَّ ” سے مراد چہرے کے پردے کیلئے استعمال ہونی والی چادریں ہیں۔۔۔
اس کے بعد ابو بکر جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بوڑھی خواتین کے بال “عورہ”[یعنی: چھپانے کی چیز ہے] چنانچہ نوخیز لڑکی کے بالوں کی طرح بوڑھی عورت کے بالوں پر اجنبی کی نظر پڑنا جائز نہیں ہے، نیز اگر بوڑھی خاتون نے ننگے سر نماز ادا کی تو اسکی نماز بھی نوجوان لڑکی کی طرح فاسد ہوگی، اس لئے اجنبی لوگوں کے سامنے دوپٹہ سر سے ہٹانا جائز نہیں ہوگا، لہذا بوڑھی خاتون کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ چہرے کی چادر اجنبی لوگوں کے سامنے ہٹا سکتی ہے، لیکن سر بہر حال ڈھکا ہوگا، چنانچہ یہاں بوڑھی خاتون کیلئے اپنا چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی اجازت دی ہے؛ کیونکہ اس میں شہوت باقی نہیں ہے، اور اللہ تعالی نے یہ فرما کر کہ: (وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ) تاہم اگر وہ [چادر اتارنے سے] پرہیز ہی کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے [النور:60] انہیں چہرے کا پردہ کرنے کی اجازت دی، ساتھ میں یہ بھی بتلا دیا کہ وہ اپنے پردے کو اجنبی لوگوں کےسامنے قائم رکھے تو یہ اس کیلئے بہتر ہے” انتہی مختصراً
“احكام القرآن” (3/485)
ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“چہرے کا پردہ نہ کرنے کی اجازت صرف بوڑھی عمر رسیدہ خواتین کیساتھ اس لئے مختص ہے کہ ان کی طرف دل مائل نہیں ہوتا، اور اگر بوڑھی خواتین بھی پردہ کریں تو یہ پردہ نہ کرنے کی اجازت سے زیادہ بہتر ہے” انتہی
“احكام القرآن” (3/419)
سعدی رحمہ اللہ تفسیر سعدی (صفحہ: 670) میں کہتے ہیں:
” وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَاءِ ” یعنی وہ خواتین جو شہوت، اور جنسی تسکین سے بیٹھ چکی ہیں، ” اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا ” یعنی انہیں نکاح کی کوئی رغبت نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی ان سے نکاح کیلئے رغبت کرتا ہے، کیونکہ وہ بہت زیادہ بوڑھی اور عمر رسیدہ ہو چکی ہے، ” فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ ” یعنی ان پر کوئی گناہ نہیں ہے ، ” أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ” یعنی پردے کیلئے لی جانے والی چادر وغیرہ، اس چادر سے وہی چادر مراد ہے جو اللہ تعالی کے فرمان: (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ)اور اپنی چادروں سے سینوں کو ڈھانپ لیں[النور:31] میں ہے، چنانچہ ان خواتین کیلئے چہرہ کھولنا جائز ہے، کیونکہ یہاں بوڑھی خواتین کے بارے میں اور خواتین کی وجہ سے کسی غلطی کا اندیشہ نہیں ہے۔
پھر جب بوڑھی خواتین پر پردہ نہ کرنے کی وجہ سے گناہ نہ ہونے کا ذکر کیا گیا تو اس سے یہ اندیشہ تھا کہ ہر حالت میں بوڑھی خواتین پردہ نہ کریں! تو اس اندیشے کو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان سے ختم کر دیا: ” غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ” یعنی: لوگوں کے سامنے اظہار زینت نہ کرتی پھریں، کہ اپنا زرق برق ظاہری لباس زیب تن کریں، اور زمین پر قدم ماریں، تا کہ انکی مخفی زینت بھی عیاں ہو، کیونکہ صنف نازک کی زینت والی اشیا چاہے پردے میں ہی کیوں نہ ہوں، اور چاہے صنف نازک عمر رسیدہ ہی کیوں نہ ہو، انسان پھر بھی بہک جاتا ہے، اور اسے دیکھنے والا حرج میں مبتلا ہو جاتا ہے، [اسی لئے فرمایا] ” وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ ” انتہی مختصراً
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“کیا کسی 70 یا 90 سالہ بوڑھی خاتون کیلئے اپنے غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے چہرے سے پردہ ہٹانا جائز ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“فرمانِ باری تعالی ہے: (وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)
ترجمہ: اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں وہ اگر اپنی چادریں اتار دیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں ۔ تاہم اگر وہ [پردہ کر کے] عفت حاصل کریں تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سب کچھ سنتا، جانتا ہے۔ [النور:60] ” وَالْقَوَاعِدُ ” سے وہی خواتین مراد ہیں جنہیں شادی کی کوئی رغبت نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اظہارِ زینت کرنا چاہتی ہیں، تو ان کیلئے اپنے غیر محرم کے سامنے چہرے سے پردہ ہٹانے پر کوئی گناہ نہ ہوگا، تاہم پردہ کرنا ان کیلئے بہر حال افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ” وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ “[اور اگر وہ -پردہ کرتے ہوئے -عفت تلاش کریں تو یہ ان کیلئے بہتر ہے]، اسی طرح کچھ بوڑھی خواتین اظہارِ زینت کے بغیر بھی اپنی طبعی خوبصورتی کی وجہ سے فتنے کا باعث بن سکتی ہیں، تاہم اظہارِ زینت کر کے بے پردہ ہونا جائز نہیں ہے، اور ممنوعہ اظہارِ زینت میں آنکھوں میں سرمہ پہننا بھی شامل ہے۔ واللہ تعالی عمل کی توفیق دے” انتہی
“فتاوى المرأة المسلمۃ” (1/424)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب