0 / 0
8,47507/08/2009

رخصتى كے بعد اچانك علم ہوا كہ خاوند رافضى شيعہ ہے اب كيا كرنا چاہيے ؟

سوال: 111970

ميرى ايك برس قبل شادى ہوئى اور دو ماہ قبل انكشاف ہوا كہ ميرا شوہر تو رافضى شيعہ ہے! وہ شيعہ كے اعتقادات ركھتا ہے اور ان كى كتاب ” الكافى ” پر عمل پيرا ہے! مجھے پتہ نہيں چل رہا كہ ميں كيا كروں، كيا ميرى يہ شادى صحيح ہے، اور كيا ميرے ليے يہ شخص حلال ہے ؟

برائے مہربانى ميرا تعاون كريں، ميں اس كے متعلق حكم معلوم كيے بغير اپنے گھر والوں كو دھچكہ نہيں دينا چاہتى، اس سلسہ ميں حكم كيا ہے كيونكہ نيٹ پر بہت زيادہ فتوى ہيں اور ميرى حالت كچھ مخصوص سى ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ہميں لوگوں پر بہت تعجب ہوتا ہے كہ وہ اپنى بيٹيوں كى شادى گمراہ اور بدعتيوں اور منحرف قسم كے لوگوں كے ساتھ كيسے كر ديتے ہيں، بلكہ اسے لوگوں سے شادى كر ديتے ہيں جو زنديق اور كافر ہوتے ہيں، ليكن ہمارا يہ تعجب اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہميں علم ہوتا ہے لوگ ان گمراہ عقائد سے جاہل ہيں انہيں ان عقائد كا علم ہى نہيں كہ يہ اعتقادات اہل سنت و الجماعت كے عقائد سے مخالفت ركھتے ہيں.

اور ہمارا يہ تعجب اس طرح بھى ختم ہو جاتا ہے جب ہميں معلوم ہوتا ہے كہ جہالت و گمراہى كے فتاوى جات لوگوں ميں مشہور ہيں، ان لوگوں كى جانب سے نہيں جو اہل سنت كا كسى صوفى يا شيعى سے نكاح جائز قرار ديتے ہيں: بلكہ ان يہ فتاوى ان كى جانب سے ہوتا ہے جو دين كا لبادہ اوڑھے ہوئے ہيں اور انہوں نے تو مسلمان عورت كا كافر شخص كے ساتھ نكاح بھى جائز قرار ديا ہے!

يہاں شديد ترين بيمارى يہ ہے كہ: لوگ اپنے دين كے معاملات سے جہالت اور اسلامى قوانين كى اہانت كے ساتھ ساتھ خاوند اور منگيتر كى متعلق كوئى زيادہ خيال نہيں كرتے كہ وہ اس كے دين كے بارہ ميں دريافت كريں اور اس كے متعلق كوشش كريں؛ بلكہ انہيں تو صرف دنيا اور معاش كى اہميت ہوتى ہے؛ اس ليے اس ميں انہيں جو مناسب معلوم ہو اسے قبول كر ليتے ہيں، اور اس كى غلطيوں اور كوتاہيوں سے چشم پوشى برتتے ہيں، اور جو مناسب نہ لگے اسے رد كر ديتے ہيں چاہے وہ نيك و صالح اور نمازى ہى ہو!!

رہا آپ كا اس رافضى شيعہ سے شادى كا مسئلہ تو يہ شادى باطل ہے، اور شرعى طور پر فسخ ہے؛ جب يہ شخص ” الكافى ” ميں گمراہ اور زنديقيت پر مشتمل عقائد ركھتا اور اس پر عمل كرتا ہو.

آپ اور آپ كے گھر والوں كو آپ اور اس شخص كے درميان علحيدگى كى كوشش كرنى چاہيے، اور اگر يہ فسخ ميسر نہ ہو تو آپ اس سے طلاق كا مطالبہ كريں، اور اگر وہ طلاق دينے سے انكار كرے اور اس شادى ميں اللہ كى شريعت كى تطبيق كرنے والا كوئى نہ ہو تو آپ اس سے خلع لے ليں اور اس كے ليے جتنا مال وہ طلب كرے ادا كريں، مثلا باقى مانندہ مہر معاف كر ديں يا پھر جو آپ كو مل چكا ہے وہ سارا يا اس ميں سے كچھ واپس كر كے اپنے آپ كو اس سے چھڑائيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اللہ كى قدرت ميرے ليے ايك كردى شخص كا رشتہ آيا جو اہل سنت ميں سے ہونے كا دعوى كرتا تھا، اور اس كا ظاہر تو صحيح اور اصلاح والا ہے، اس كا نام ” حيدر عبد المحسن الجابرى ” ہے جو كچھ ماہ ميرے والد كے ساتھ رہا اور ميرے والد صاحب كا مہمان رہا، اس عرصہ ميں وہ اخلاق و دين والا تھا اور ميرے والد كے سامنے يہى باور كراتا رہا كہ وہ اہل سنت ميں سے ہے، بلكہ شيعہ پر اعلانيہ طور پر حملے بھى كرتا رہا.

اور ميرے والد نے اس شخص ميں جو تقوى و اصلاح ديكھى تو اس شخص كے ساتھ ميرى شادى پر متفق ہو گئے، اور جب عقد نكاح ہوا اور ميرى رخصتى ہو گئى تو اس نے اعلان كر ديا كہ وہ اہل سنت ميں سے نہيں، بلكہ وہ شيعہ سے تعلق ركھتا ہے اور اپنے مذہب كے ليے متعصب بھى ہے، اور جب ہم نے اس كو اسلام اور اہل سنت كے منہج كى طرف واپس پلٹنے كى دعوت دى اور اس پر اس سلسلہ ميں تنگى كى تو وہ كہنے لگا:

پھر يہ ہے كہ نہ تو ميں سنى ہوں اور نہ ہى شيعى بلكہ ميں كيمونسٹ ہوں يعنى ملحد!

جناب مفتى صاحب ميرا سوال يہ ہے كہ: اس صورت ميں ميرا اس شخص كے ساتھ رہنے كے متعلق شرعى حكم كيا ہے اور خاص كر جب اس كے خبث باطن كا اظہار ہوا ہے تو ميں اسے ناپسند كرنے لگى ہوں، اور وہ پچھلے عرصہ ميں ہميں دھوكہ ديتا رہا ہے، اور ہميں يہ باور كراتا رہا كہ وہ سنى مسلمان ہے، اور اس شخص سے عقد نكاح سے چھٹكارا پانے كے ليے كيا راہ اختيار كيا جائے، اور ميں اس كو كيسے فسخ كر سكتى ہوں اور كيسے چھٹكارا پا سكتى ہوں، خاص كر جب ميں ايك غير مسلم ملك ميں بس رہى ہوں ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

” اہل سنت كى بيٹيوں كا شيعہ اور كيمونسٹ كے بيٹوں سے شادى كرنا جائز نہيں، اور اگر نكاح ہو جائے تو يہ باطل ہے، كيونكہ شيعہ كے متعلق معروف ہے كہ وہ اہل بيت سے استغاثہ كرتے اور مدد مانگتے اور ان كو پكارتے ہيں، اور يہ شرك اكبر ہے، اور اس ليے كہ كيمونسٹ حضرات ملحد ہيں اور ان كا كوئى دين نہيں.

سائلہ كو اپنے ميكے چلے جانا چاہيے اور اس شخص كو اپنے نزديك نہيں آنے دينا چاہيے، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے ہاں اس كے ذمہ دار محكمہ ميں اس مسئلہ كو اٹھانا چاہيے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ بكر ابو زيد.

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 298 – 300 ).

دوم:

كتاب ” الكافى ” ميں كفر زنديقيت بھرى ہوئى ہے، اور يہ كتاب رافضى مذہب كى ايك معتبر اور مرجع شمار ہوتى ہے، اس كى اہميت كے پيش نظر آپ سوال نمبر ( 111952 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android