0 / 0
8,03528/03/2014

جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہووہ تہمت لگانے والے کو معاف کر کے اس سے حد ختم کر سکتا ہے؟

سوال: 112116

کیا جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہووہ تہمت لگانے والے کو معاف کر کے اس سے حد ختم کر سکتا ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

"قذف" کسی شخص پر زنا کی تہمت کو کہتے ہیں، چنانچہ جو شخص کسی پاکباز شخص پر تہمت لگائے تو اس پر حد قذف واجب ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً

ترجمہ: اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کرسکیں انھیں اسی کوڑے لگاؤ۔ النور/4

تہمت کی سزا اصل میں جس پر تہمت لگائی گئی ہے اُسکا حق ہے، کیونکہ سزا کا مقصد اُسکی پاکبازی کا اظہار ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تہمت کی سزا اس وقت تک نہیں دی جاتی جب تک وہ اِسکا مطالبہ نہیں کرتا، یہی ائمہ اربعہ (ابو حنیفہ، مالک، شافعی، اور احمد)کا مذہب ہے۔

بلکہ اگر تہمت لگائے گئے شخص نے حد لگانے کا مطالبہ کیا پھر بعد میں اُس نے معاف کردیا تو حد نہیں لگائی جائے گی، بالکل ایسے ہی جیسے قصاص کے مطالبے کے بعد معاف کردے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (12/386) میں کہتے ہیں:

"تہمت کی سزا لگانے کیلئے تہمت لگائے گئے شخص کا مطالبہ معتبر ہوگا، کیونکہ یہ اُسی کا حق ہے، چنانچہ اسکے مطالبے کے بغیر حد نہیں لگائی جائے گی، جیسے اُسکے دیگر حقوق میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔ چنانچہ اگر وہ حد لگانے کا مطالبہ کرنے کے بعد تہمت لگانے والے کو معاف کردے تو سزا ختم ہوجائے گی، شافعی بھی اسی بات کے قائل ہیں" کچھ تبدیلی اور اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔

اور "زاد المستقنع"میں ہے کہ : "وَهُوَ حَقٌّ لِلْمَقْذُوفِ" ترجمہ:"یہ تہمت لگائے گئے شخص کا حق ہے"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسکی شرح میں کہتے ہیں:

وهو یعنی: حد قذف، حق للمقذوف جس پر تہمت لگائی جا رہی ہے اُسکا حق ہے ، اللہ کا حق نہیں، جبکہ ابو حنیفہ کہتے ہیں: یہ اللہ کا حق ہے۔

چنانچہ تہمت لگائے جانے والے شخص کا حق ہونے کی وجہ سے اگر متہم شخص معاف کردے تو یہ حد ساقط ہوجائے گی،لہذا زناکی تہمت لگانے کے بعد اگر متہم -جس پر تہمت لگائی گئی-شخص نے معاف کردیا تو حد ساقط ہے؛ کیونکہ یہ اُسی کا حق ہے، جیسے اُسکے کسی پر کچھ درہم قرض تھے تو معاف کرنے کی وجہ سے ساقط ہو جائیں گے۔

اور نہ ہی متہم شخص کے مطالبے کے بغیر حد قذف لگائی جائے گی، چنانچہ جب تک متہم شخص مطالبے نہیں کریگا، ہم تہمت لگانے والے شخص کو کچھ نہیں کہیں گے، چاہے حکمران تک یہ بات کیوں نہ پہنچ جائے، پھر بھی حد نہیں لگائی جائے گی؛صرف اِسی وجہ سے کہ یہ متہم شخص کا حق ہے، چنانچہ جب تک یہ متہم کا حق تصور ہوگا اس وقت تک ہم اِسکے درپیش نہیں ہونگے، یہاں تک کہ صاحبِ حق- متہم شخص- اسکا خود مطالبہ کرے۔۔۔

حد قذف متہم شخص کا حق ہے، اس بنا پر کچھ احکام مرتب ہوتے ہیں، جن میں سے یہ ہیں:

اول: متہم شخص کے معاف کرنے سے ساقط ہوجائے گی۔

دوم:اس وقت تک سزا نہیں دی جائے گی جب تک متہم شخص مطالبہ نہ کرے۔۔۔ راجح یہی ہے کہ یہ متہم شخص کا حق ہے" انتہی مختصراً

"الشرح الممتع" (14/284- 286)

مزید کیلئے دیکھیں: "المجموع" (22/128) ، حاشيۃ الدسوقی" (6/331)

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android