0 / 0

موت يا عليحدگى كى شرط پر كچھ مہر مؤجل پر شادى كرنا

سوال: 112162

اگر كوئى شخص كچھ مہر شادى كے وقت اور باقى موت يا عليحدگى كى صورت ميں مؤجل مہر پر شادى كرے تو كيا يہ جائز ہے، كيونكہ ان كى عادت ہے كہ باقى مہر موت يا عليحدگى كے وقت ہى ليا جاتا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

يہ صحيح ہے، چاہے وہ يہ الفاظ بوليں يا پھر ان ميں يہ عادت معروف ہو.

اس بنا پر عورت اور اس كے خاندان والوں كے ليے مہر مؤجل وقت سے قبل طلب كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كو حق حاصل ہے كہ وہ مہر مؤجل لينے سے قبل اپنے آپ كو خاوند سے روك لے، كيونكہ عقد نكاح كے وقت وہ اس پر متفق ہوئے تھے كہ مذكورہ مہر بعد ميں ديا جائيگا، اور اگر بيوى اپنے ميكے چلى جائے، اور ميكے والے كہيں كہ ہم اس وقت تك اسے خاوند كے سپرد نہيں كرينگے جب تك وہ مہر نہ دے، تو انہيں ايسا كرنے كا حق حاصل نہيں، اور ان كا بيوى كو خاوند كے سپرد نہ كرنا صحيح نہيں.

اور اگر وہ بيوى بھى اپنے آپ كو اس حجت اور وجہ سے خاوند كے سپرد نہيں كرتى تو خاوند كے ذمہ اس كا نان و نفقہ نہيں ہوگا، كيونكہ وہ نافرمان ہے، اور بغير كسى حق كے نافرمانى كرنے والى بيوى كو نان و نفقہ نہيں ديا جائيگا " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد الرحمن بن ناصر السعدى رحمہ اللہ.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android