میں اہلیان جدہ میں سے ہوں اس سال اللہ تعالی نے مجھے میرے اہل خانہ کے ساتھ حج کرنے کی سعادت بخشی (واضح رہے کہ ہم نے کسی بھی حج گروپ کے بغیر حج کیا تھا ہماری وہاں پر کوئی رہائش وغیرہ نہیں تھی) ہم نے یوم عرفات ، مزدلفہ اور دس تاریخ کے تمام مناسک ادا کئے، ہم نے کنکریاں ماریں، بال کٹوائے، سعی اور طواف افاضہ کیا نیز دس تاریخ کو ہی ہم نے طواف وداع بھی کر لیا۔
پھر ہم جدہ چلے گئے وہاں پر ہم رات نو بجے تک گھر میں رہے اس کے بعد رات منی کی جانب روانہ ہو گئے کہ منی کی رات منی میں گزاریں، چنانچہ منی میں ہم نے رات گزاری اور گیارہ تاریخ کی فجر منی میں ادا کر کے ہم جدہ آ گئے ، اس کے بعد گیارہ تاریخ کی مغرب کو ہم جدہ سے دوبارہ منی روانہ ہوئے وہاں پر ہم نے گیارہ تاریخ کی رمی کی ، پھر ہم نصف رات دو بجے کے بعد تک منی میں رہے اور پھر جدہ واپس آ گئے، پھر بارہ ذو الحجہ کو ہم جدہ سے ظہر کی نماز کے بعد منی کی جانب روانہ ہو ئے اور جمرات کو رمی کرنے کے بعد ہم منی سے عصر کے بعد چار بجے جدہ کیلیے روانہ ہو گئے، تو کیا ہم پر حج کے مہینوں میں طواف وداع لازمی ہے؟ اور کیا ہم پر دم لازم آتا ہے؟
دس ذو الحجہ کو طواف افاضہ اور طواف وداع کر لیا
سوال: 112913
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
حجاج کیلیے سنت یہی ہے کہ دن کے وقت منی میں ہی رہیں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حج کے دوران دن کے وقت منی میں ہی رہے تھے، البتہ حاجی دن کے وقت مکہ اور جدہ وغیرہ جا سکتے ہیں، مشاعر سے باہر جانے کی اس وقت بھی اجازت ہے جب حاجی کی منی میں جگہ نہ ہو۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
کیا ایام تشریق میں مکہ کے قریب ترین علاقے مثلاً: جدہ وغیرہ جانا حج کیلیے خلل انداز نہیں ہوتا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اس سے حج میں خلل پیدا نہیں ہوتا، تاہم افضل یہی ہے کہ انسان دن اور رات منی میں ہی رہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا” انتہی
“مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین” (23/241، 243)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (36244) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
طواف وداع حج کے ارکان اور واجبات ادا کرنے کے بعد ہوتا ہے، یعنی ایامِ منی اور جمرات کو مکمل کنکریاں مارنے کے بعد، اس لیے طواف وداع کو اس وقت سے قبل کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص طواف وداع دس ، یا گیارہ تاریخ کو کر لیتا ہے تو یہ اس کیلیے ناکافی ہے۔
البتہ طواف افاضہ کو طواف وداع تک کیلیے مؤخر کیا جاسکتا ہے ، جیسے کہ پہلے سوال نمبر : (36870) میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” جس شخص کی رہائش جدہ میں ہو اور وہ جمرات کو کنکریاں مارنے سے پہلے طواف افاضہ کرتے ہوئے نیت کر لے کہ اس کا طواف افاضہ ہی طواف وداع بھی ہے تو یہ طواف اس کیلیے طواف وداع سے ناکافی ہو گا؛ کیونکہ طوافِ وداع کا وقت حج کے اعمال مکمل ہونے بعد ہوتا ہے اور ابھی تک اس کے حج کے اعمال باقی ہیں۔
لیکن اگر اس کا مذکورہ طواف افاضہ تمام جمرات کو کنکریاں مارنے کے بعد ہو اور طوافِ وداع کیلیے بھی اسی طواف کو کافی بنائے ، پھر اس طواف کے بعد مکہ میں نہ ٹھہرے بلکہ فوری سفر کر لے تو اس کا یہ طواف ، طوافِ وداع سے بھی کفایت کر جائے گا” انتہی
“فتاوى شیخ ابن ابراہیم” (6/108)
حاصل کلام یہ ہے کہ: آپ کا طواف وداع صحیح نہیں ہے، مناسک ادا کرتے ہی طواف کے بغیر آپ کا جدہ چلے جانے کی وجہ سے آپ پر دم لازم ہو گا، اس کیلیے آپ بکری ذبح کر کے حرم کے فقرا میں تقسیم کریں گے۔
اسی طرح آپ کی بیوی پر بھی ایک بکری کا دم لازمی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ بیت اللہ کو الوداع کرتے ہوئے وہ حیض سے نہ ہو؛ کیونکہ حائضہ عورت پر طواف وداع لازمی نہیں ہے۔
جیسے کہ صحیح بخاری: (1755) اور مسلم: (1328) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: “لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ میں گزرنا چاہیے، البتہ حائضہ عورت کیلیے اس میں تخفیف کر دی گئی”
اگر اب آپ طواف وداع کرنا چاہیں تو صحیح نہیں ہوگا، اگر طواف کر بھی لیں تو آپ پر لازم شدہ دم ساقط نہیں ہو گا؛ کیونکہ آپ طواف وداع کئے بغیر مکہ سے جدہ چلے گئے ہیں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“ہم جدہ کے رہائشی ہیں ، ہم گزشتہ سال حج کیلیے آئے تھے اور ہم نے طواف وداع کے علاوہ تمام مناسک مکمل کئے ، ہم نے طواف وداع ماہ ذو الحجہ کے آخر تک مؤخر کیا، پھر جب ازدحام کم ہوا تو ہم نے واپس آ کر طواف وداع کیا، تو کیا ہمارا حج صحیح ہے؟”
اس پر انہوں نے جواب دیا:
“حج کرتے ہوئے انسان طوافِ وداع کو آخری وقت تک کیلیے مؤخر کر دے تو اس کا حج صحیح ہے چنانچہ اس کو چاہیے کہ مکہ سے نکلنے سے پہلے طواف وداع کر لے۔
لیکن اگر انسان مکہ کا رہائشی نہ ہو مثلاً: جدہ، طائف، یا مدینہ وغیرہ کا رہائشی ہے تو وہ طواف وداع کے بغیر گھر واپس نہیں جاسکتا، طواف کیلیے صرف سات چکر لگائے گا اس میں سعی نہیں ہے؛ کیونکہ الوداع کرنے کیلیے صرف طواف ہے سعی نہیں ہے۔
تاہم اگر کوئی شخص اپنے گھر روانہ ہو جاتا ہے اور طواف وداع نہیں کرتا تو جمہور اہل علم کے ہاں اس پر دم ہے، جو کہ مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور مکے کے فقیروں مسکینوں میں تقسیم ہوگا، نیز اس کا حج بھی صحیح ہو گا، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ: اہل علم کے صحیح موقف کے مطابق طواف وداع واجب ہے، اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: “جو شخص کوئی نسک چھوڑ دے یا بھول جائے تو وہ دم ذبح کرے” اب طواف وداع بھی ایک نسک ہے اسے انسان نے جان بوجھ کر چھوڑا ہے، اس پر لازمی ہے کہ مکہ میں دم ذبح کرے اور فقیروں مسکینوں میں تقسیم کیا جائے، نیز اگر وہ واپس آ کر طواف کرتا ہے تو اس سے دم ساقط نہیں ہوگا، یہی پسندیدہ موقف ہے، اور میرے ہاں بھی ہی موقف زیادہ راجح ہے، واللہ اعلم” انتہی
“مجموع فتاوى ابن باز” (17/ 397)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات