اللہ تعالی کے اسم ” المقدم اور المؤخر ” کا معنی کیا ہے ؟
اللہ تعالی کے اسم ” المقدم اور المؤخر ” کا معنی ۔
سوال: 11366
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحہانہ وتعالی ہی ہے جوکہ کسی چیز کوبھی جس کا حکما اورفعلا مقدم کرنا ضروری ہوجس طرح اورجیسے اسے پسند ہو مقدم کرتا ہے ، اورجسے وہ مقدم کرے وہی مقدم اورجسے مؤخر کرے وہی مؤخر ہے ، وہ اللہ تبارک وتعالی جسے مؤخرکرنا ضروری ہو اسے مؤخر کرتا ہے ، پھر بھی ہے کہ اللہ تعالی جوبھی کرتا ہے اس میں اصلاح اور حکمت ہے اگرچہ ہم پر اس کی اصلا ح اور حکمت واضح نہ بھی ہو ۔
وہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ہرایک چیز کو اس کے منزل ومرتبہ پر اتارتا اور جوچاہے مقدم کرے اورجو چاہے مؤخر کرے ، اس نے مخلوقات کوپیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی تقدیر کو مقدم کیا ، اور اپنے اولیاء میں سے جسے پسند فرمایا اسے اپنے دوسرے بندوں پر مقدم کردیا ، اورمرتبہ ودرجات کے اعتبار سے مخلوق کوایک دوسرے سے بلندی عطا کی ، اورکچھ کواپنی توفیق سے سابقین کا کے مقام ومرتبہ پر پہنچا دیا ، اور جس کوچاہا اس کے مرتبہ میں کمی کردی اور اسے مؤخر کردیا ، اور کسی چيز کو اس کے وقوع سے مؤخر کردیا کیونکہ اس کے علم میں اس کا انجام تھا اور اس میں کوئ حکمت پائ جاتی تھی ، تو اللہ تعالی جسے مؤخر کردے اسے کوئ مقدم کرنے والا نہیں اورنہ ہی جسے اللہ تعالی مقدم کردے اسے کوئ مؤخر کرسکتا ہے ۔
اورتقدیم دو چیزوں پر مشتمل ہے :
التقدیم الکونی : اورالتقدیم الشرعی ؛
تقدیم الکونی : مثلا ، مخلوقات میں سے بعض کی تقدیم ، اور اسباب کوان کے مسبب اورشروط ان کےمشروط سے مقدم کرنا ۔
اورتقدیم الشرعی : مثلا ، بعض انبیاء کی دوسرے انبیاء پر فضیلت ، اور انبیاء کی باقی ساری مخلوق پر فضیلت اوراسی طرح بندوں کی ایک دوسرے پر فضیلت ، تو یہ سب کچھ اللہ تعالی کی حکمت کے تابع ہے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
اور وہ اللہ تعالی ہی مقدم ومؤخر ہے ،تو یہ دونوں صفتیں افعال کی تابع ہیں ، اور یہ دونوں صفتیں ڈاتی ہیں جوکہ ذات کے علاوہ کسی غیر کے ساتھ قائم نہیں ۔ .
ماخذ:
دیکھیں : کتاب شرح اسماء اللہ تعالی الحسنی صفحہ نمبر ( 218 ) - تالیف : ڈاکٹر حصۃ الصغیر