سوال: یہ قصے کی کیا حقیقت ہے کہ: “التحیات” کا لفظ اس وقت استعمال کیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کیلیے آسمان پر تشریف لے گئے اور جس وقت آپ سدرۃ المنتہی پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ” کہا ۔
اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا: ” اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ”
پھر فرشتوں نے کہا: ” اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ”
یہ قصہ اسکولوں اور مدارس میں بچوں کو “التحیات” یاد کروانے کیلیے بتلایا جاتا ہے۔
واقعۂِ معراج کے موقع پر “التحیات” کا لفظ ذکر کیا گیا تھا؟
سوال: 113952
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس واقعے کہ کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ کوئی سند ہے، ہمیں ثابت شدہ احادیث میں اس سے متعلق کوئی نام و نشان نہیں ملا، لیکن واقعۂِ معراج مکمل تفصیلات کیساتھ صحیح بخاری و صحیح مسلم سمیت دیگر کتابوں میں ثابت شدہ ہے، اس کے با وجود نماز کے تشہد سے متعلق ایسی کوئی بات ان میں ذکر نہیں کی گئی، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ تشہد صحابہ کرام کو سکھایا تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیلات بیان نہیں فرمائیں۔
چنانچہ صحیح بخاری: (6328) اور مسلم: (402) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ : “ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے کہا کرتے تھے: اللہ تعالی پر سلامتی ہو، فلاں پر بھی سلامتی ہو، تو ایک بار ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ اللہ تعالی تو بذاتِ خود ہی سلامتی ہے، اس لیے جب بھی کوئی تشہد میں بیٹھے تو یوں کہا کرے : ( اَلتَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ )[تمام زبانی، بدنی، اور مالی عبادات اللہ تعالی کیلیے ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے سلامتی ، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں، ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد –-اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں] (جب ایسے کہے گا تو آسمان و زمین میں موجود اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں تک نمازی کی دعا پہنچ جائے گی، یہ کہنے کے بعد جو مانگنا چاہے سو مانگ لے)”
ہمیں زیادہ سے زیادہ اس واقعہ کے بارے میں ( سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ ) نہایت رحم کرنے والے پروردگار کی طرف سے تم پر سلامتی ہو [يٰس:58] آیت کے تحت چند تفسیر کی کتابوں میں یہ بات ملی ہے کہ:
“مفسرین کا کہنا ہے کہ: اس سے اشارہ ہے اللہ تعالی کے اس سلام کی طرف جو شب معراج کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی نے فرمایا تھا: ” السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ “[اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی سلامتی ، رحمتیں اور برکتیں ہوں] تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلام کو قبول کرتے ہوئے جواب دیا تھا: “اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِيْنَ”[ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی ہو]” انتہی
“روح المعانی” از علامہ آلوسی” (3/38)
اسی طرح چند شارحینِ حدیث نے تشہد کی دعا ذکر کرتے ہوئے جو شرح کی ہے وہاں اس سے ملتی جلتی بات ملتی ہے، جیسے کہ بدر الدین عینی نے “شرح سنن ابو داود” (4/238) میں ذکر کی ہے، نیز ملا علی قاری نے اسے “مرقاۃالمفاتیح” میں ابن الملک سے نقل کیا ہے۔
اسی طرح یہ واقعہ کچھ فقہ کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہےمثال کے طور پر : “تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق” (1/121) اسی طرح قسطلانی اور شعرانی جیسے صوفیوں کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔
لیکن کسی نے بھی اس واقعہ کو سند کے ساتھ ذکر نہیں کیا، اس لیے اس واقعہ کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کرنا درست نہیں ہے، بالکل اسی طرح یہ واقعہ بچوں کو بھی نہیں سکھانا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی تمام احادیث کو بیان کرنا حرام ہے، صرف ایک صورت میں بیان کرنا جائز ہے جب ان احادیث کی حقیقت عیاں کرنا مقصود ہو اور ان سے لوگوں کو خبردار کرنا ہو۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب