ميں ايك اٹھائس برس كے مسلمان نوجوان سے شادى شدہ ہوں ہمارى شادى كو تقريبا ايك برس اور دو ماہ ہوئے ہيں، ميرے خاوند كا ماضى بہت برا تھا، ليكن اس كے باوجود اس نے ميرے والدين سے ميرا رشتہ طلب كيا اور مجھ سے شادى كرنا چاہى كيونكہ وہ استقرار چاہتا تھا اور اپنى زندگى ميں تبديلى چاہتا اور ان سب عورتوں كو بھول جانا چاہتا تھا جنہيں وہ ماضى ميں جانتا تھا.
ہم نے شادى كر لى اور وہ ہميشہ ( اللہ معاف كرے ) اللہ پر سب و شتم كرتا تو ميں بہت زيادہ ناراض ہوتى اور اسے نصيحت بھى كرتى، ميرا خاوند گھر كى ذمہ دارياں نہيں سمجھتا اور نہ ہى بيوى كے حقوق اب تو ہمارى ايك ماہ كى بچى بھى ہے اسے ديكھنے سے بھى مجھے محروم كر ديا ہے.
آپ جان ليں كہ ميں نے اس كے ساتھ كوئى غلطى اور قصور والا كام نہيں كيا، الحمد للہ وہ بھى سب كے سامنے اس كا اعتراف كرتا ہے، اور سب مجھے جانتے بھى ہيں كہ ميں اللہ كا بہت زيادہ ڈر ركھنے والى ہوں اور خاوند سے محبت كرتى ہوں اور ہميشہ اس كى ہدايت كى دعا كرتى رہتى ہوں.
ليكن اب ميں طلاق كا سوچ رہى ہوں ميں پہلے بھى سوچا ليكن صبر و تحمل سے كام ليتى رہى حتى كہ مجھ پر انكشاف ہوا كہ وہ خائن اور جھوٹا ہے اسے اللہ كا ڈر نہيں اور مجھے شك ہے كہ اس كى زندگى ميں كوئى اور بھى ہے، برائے مہربانى مجھے كوئى نصيحت كريں، آپ كا شكريہ.
خاوند اللہ پر سب و شتم كرتا ہے كيا اس سے طلاق حاصل كر لے
سوال: 114662
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر آپ كا خاوند اللہ عزوجل پر سب و شتم كرتا يا پھر نماز ادا نہيں كرتا تو آپ كے ليے اس كے ساتھ رہنے ميں كوئى خير نہيں، جب تك وہ سچى اور پكى توبہ كر كے اپنے اعمال صحيح نہ كر لے، كيونكہ علماء كرام كے اجماع كے مطابق اللہ سبحانہ و تعالى پر سب و شتم كفر اور اسلام سے ارتداد ہے، اور علماء كرام كے راجح قول كے مطابق سستى اور كاہلى سے نماز ترك كرنا كفر ہے اور اتداد ہے.
خاوند اگر ارتداد والا كام كرے يا كوئى ايسى بات كہے جس سے اسلام سے خارج ہو جائے اور بيوى كى عدت گزرنے تك توبہ نہ كرے تو بيوى اس سے بائن ہو جائيگى، اور اگر وہ توبہ كر لے تو نئے نكاح سے ہى حلال ہوگى، اور حيض والى عورت كى عدت تين حيض ہے يا جسے حيض نہيں آتا وہ تين ماہ عدت گزارے گى.
اللہ محفوظ ركھے جب عدت گزرنے سے قبل وہ مرتد ہو كر اسلام ميں واپس ہو جائے تو راجح قول كے مطابق زوجيت باقى ہے ـ اور توبہ كرنے سے قبل وہ بيوى كے قريب نہيں جا سكتا ـ ليكن جس كى حالت يہ ہو اس كے ساتھ باقى رہنے ميں كوئى خير نہيں، كيونكہ وہ اپنے پروردگار كا خائن ہے، وہ نہ تو اپنى بيوى اور نہ ہى اولاد كے ليے امين ہو سكتا ہے، اور اس طرح كا شخص اپنى اولاد كى تربيت و پرورش بھى حق پر نہيں كر سكتا.
مزيد آپ سوال نمبر (103082 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اگر بيوى بغير كسى عذر اور سبب كے طلاق كا مطالبہ كرتى ہے تو يہ حرام ہے.
اور اگر عذر كى بنا پر ہو جيسا كہ آپ كى حالت ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ آپ كے ليے لازم ہے كہ اگر خاوند ارتداد كے كاموں پر اصرار كرتا ہے تو آپ اس سے عليحدگى كى كوشش كريں.
مزيد آپ سوال نمبر (82439 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس كو نصيحت كرنے اور اس كى راہنمائى اور اس كى توبہ كى حرص ركھيں تا كہ خاندان بكھرنے سے محفوظ رہے، اگر توبہ كر لے تو الحمد للہ اور اگر وہ اس پر اصرار كرے جو كر رہا ہے تو ہم اميد كرتے ہيں كہ اللہ تعالى آپ كو اس كے عوض كوئى بہتر دے گا.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى اپنى وسعت سے دونوں كو غنى كر ديگا اور اللہ تعالى وسعت والا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے اور آپ كى مشكلات كو دور كرے اور آپ كى پريشانى ختم كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات