ایک مسلمان لڑکے میں خود اعتمادی نہیں ہے، تو اسے پیدا کرنے کے لیے کیا کرے؟ اس نے کئی طریقے اپنائے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں سے بات کرتے ہوئے مکمل اعتماد اس میں پیدا نہیں ہو رہا۔
مسلمان میں خود اعتمادی کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا یہ اللہ تعالی کی مدد سے بے نیازی شمار ہوگی؟
سوال: 115129
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
خود اعتمادی انسان اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے، اس کے لیے خود اعتمادی پیدا کرنے والے ذرائع جاننے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ انسان ان ذرائع کو اپنا کر اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے، لیکن اس سے پہلے کچھ چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے: خود اعتمادی اور خود پسندی میں فرق سمجھیں؛ کیونکہ خود اعتمادی میں انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی اچھی صفات کا احساس ہوتا ہے اور انسان انہیں بروئے کار لاتے ہوئے مفید سرگرمیاں سر انجام دیتا ہے، اور اگر انسان انہی اچھی صفات کا استعمال غلط کرے تو یہ خود پسندی، اور غرور بن جاتا ہے، یہ دونوں انسان کے لیے مہلک بیماریاں ہیں۔ اور اگر آپ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں اور آپ کو عطائے الہی سے ملی خوبیوں کی ناشکری کریں تو آپ سستی اور کاہلی میں دھت ہو جائیں گے اور دل اچاٹ رہے گا، اس طرح آپ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت کو ضائع کر بیٹھیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا * وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ترجمہ: اپنا تزکیہ کرنے والا کامیاب ہو گیا، اور اپنے آپ کو خاک میں ملانے والا ناکام ہو گیا۔ [الشمس: 9 – 10]
یہاں ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مسلمان جب خود اعتمادی پیدا کرے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اب اسے کامیابی اور راہِ راست پر رہنے کے لیے اللہ تعالی کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ، اور اسی طرح اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ اب انسان کو اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ اسے مشورہ دیں، اور اس کی رہنمائی کریں۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ : پروردگار! مجھے ایک پلک جھپکنے کے برابر لمحے کے لیے بھی تنہا مت چھوڑ!
جیسے کہ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مصیبت زدہ شخص کی دعا یہ ہے : اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ترجمہ: یا اللہ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں، لہذا مجھے میرے اپنے رحم و کرم پر آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تنہا مت چھوڑنا، بلکہ میرے سارے معاملات سنوار دے، تیرے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ہے۔) اس حدیث کو ابو داود: (5090) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابو داود" میں حسن قرار دیا ہے۔
اسی طرح امام نسائی: (10405) نے اسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے بھی صحیح سنن نسائی میں حسن قرار دیا ہے، نیز سنن نسائی میں یہ بھی وضاحت ہے کہ صبح اور شام کے اذکار میں یہ دعا پڑھی جائے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"یہ بات کہنے کا کیا حکم ہے کہ: "فلاں شخص اپنے آپ پر بھر پور اعتماد کرتا ہے" یا "فلاں شخص میں خود اعتمادی پائی جاتی ہے" تو کیا یہ مسنون دعا: فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ [ترجمہ: مجھے میرے اپنے رحم و کرم پر آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تنہا مت چھوڑنا ۔] سے متعارض ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
یہ جملہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ جملہ "فلاں شخص میں خود اعتمادی پائی جاتی ہے" کہنے والے کا مقصد تاکید ہوتا ہے یعنی: وہ شخص واقعی اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے، اور اسے بھر پور یقین ہے۔ یہاں یہ بات بھی ہے کہ بسا اوقات انسان کی طرف کسی چیز کی جب نسبت کی جاتی ہے تو اس سے مراد یقین ہوتا ہے، تو کبھی ظن غالب بھی مراد ہوتا ہے، اسی طرح کبھی شک اور تردد تو کبھی ظن غالب کا متضاد مراد ہوتا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ: "مجھے اس بات کا ذاتی طور پر یقین ہے"، یا کہے کہ: "مجھے اپنے آپ پر بھر پور اعتماد ہے" یا کہے کہ: "فلاں شخص اپنے آپ پر مکمل اعتماد کرتا ہے۔" یا کوئی کہے کہ: "فلاں اپنی بات پر خود ہی یقین رکھتا ہے" ان تمام جملوں میں مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے متعلقہ معاملے پر مکمل یقین ہے۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا اس جملے کا مشہور دعائیہ کلمات فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ [ترجمہ: مجھے میرے اپنے رحم و کرم پر آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تنہا مت چھوڑنا ۔] سے کوئی تصادم نہیں ہے؛ کیونکہ انسان اللہ تعالی کی توفیق سے ہی اپنے آپ پر اعتماد کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے علم، طاقت اور دیگر ضروری اسباب و وسائل عطا کیے ہوتے ہیں۔" ختم شد
" فتاوى إسلامية " ( 4 / 480 )
لہذا یہاں انسان کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مدد کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے کہ انسان اصل میں تو جاہل ہے، علم والی ذات تو اللہ تعالی کی ہی ہے، اسی طرح بندہ تو ناتواں ہے غنی ذات اللہ تعالی کی ہے، بندہ اپنی ذات میں تو بہت کمزور ہے، لیکن اللہ تعالی کی ذات بہت قوی اور طاقت ور ہے، بندہ اپنے آپ میں بہت ہی عاجز ہے لیکن اللہ تعالی کی ذات قادر مطلق ہے۔
اسی تناظر میں فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
ترجمہ: اے لوگو! تم ہی اللہ تعالی کے محتاج ہو، جبکہ اللہ کی ذات تو غنی اور قابل تعریف ہے۔[فاطر: 15]
تو معلوم ہوا کہ خود اعتمادی میں نہ تو خود پسندی ہونی چاہیے اور نہ ہی ذات باری تعالی سے یکسر بے رخی ہو اب اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ انسان کمزوری، غیر یقینی، بلا وجہ کا تامل، اور ذاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو؛ بلکہ خود اعتمادی اللہ تعالی کی مدد اور اسی پر توکل کرتے ہوئے کام کر دکھانے اور آگے بڑھنے کا نام ہے؛ اسی درجے کی طرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث اشارہ کرتی ہے کہ: (طاقتور مومن اللہ تعالی کے ہاں کمزور مومن کی بہ نسبت محبوب بھی ہے اور بہتر بھی ہے، اگرچہ [طاقتور اور کمزور] سب مومنوں میں خیر ہے۔ جو چیز آپ کو فائدہ دے اسی کی حرص رکھو، اللہ تعالی سے مدد چاہو اور عاجز مت بنو، پھر بھی اگر آپ کو مصیبت پہنچے تو یہ مت کہو کہ: کاش میں ایسے کر لیتا تو یوں ہو جاتا، بلکہ کہو: یہ اللہ تعالی نے تقدیر میں لکھا تھا اور اس نے جو چاہا وہ ہو گیا۔ کیونکہ کاش کا لفظ شیطانی عمل کا آغاز بنتا ہے۔) امام مسلم : (2664) نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث مبارکہ میں ایمان کے بہت ہی بنیادی اصول ذکر کیے گئے ہیں:
پہلا اصول: اللہ تعالی کی صفت محبت کا اثبات کہ اللہ تعالی حقیقی طور پر محبت فرماتا ہے۔
دوسرا اصول: اللہ تعالی اپنے اسما و صفات کے تقاضوں کے مطابق چیزوں سے محبت کرتا ہے، لہذا اللہ تعالی کی ذات قوی ہے تو طاقتور مومن سے محبت فرماتا ہے، اللہ تعالی کی ذات وتر ہے اور اللہ تعالی کو وتر سے محبت بھی ہے، اللہ تعالی کی ذات خوبصورت بھی ہے تو خوبصورتی سے محبت فرماتا ہے، اللہ تعالی کی ذات علم والی ہے تو علمائے کرام سے محبت فرماتا ہے، اللہ تعالی کی ذات صفائی پسند ہے تو اللہ تعالی کو صفائی بھی پسند ہے، اللہ تعالی کی ذات مومن ہے تو اللہ تعالی مومنین سے محبت فرماتا ہے، اللہ تعالی کی ذات احسان کرنے والی ہے اس لیے محسن لوگوں سے محبت فرماتا ہے، اللہ تعالی کی ذات صبر کرنے والی ہے تو صبر کرنے والوں سے بھی محبت فرماتا ہے، اللہ تعالی کی ذات قدر دان ہے اس لیے شکر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اس میں یہ بھی ہے کہ: اللہ تعالی سب اہل ایمان سے محبت فرماتا ہے، لیکن کچھ سے زیادہ فرماتا ہے اور کچھ سے کم۔
یہ بھی اس حدیث میں ہے کہ: انسان کی خوشحالی تبھی ہو گی جب اپنی زندگی اور آخرت دونوں کے لیے مفید چیزوں کی حرص کرے گا، اور حرص یہ ہے کہ انسان کسی بھی چیز کے حصول کے لیے ساری طاقت صرف کر دے، حرص کہلاتا ہے۔ پھر جب حریص شخص کو اپنی محنت سے فائدہ ہو تو اس کی حرص قابل تعریف بن جاتی ہے۔ حریص شخص کے لیے درجہ کمال انہی دو چیزوں میں پنہاں ہے کہ: پہلی چیز کہ انسان حریص ہو، اور دوسری چیز کہ مفید امور کے لیے حرص کرے۔ کیونکہ غیر مفید چیز کے لیے حرص ، یا مفید کام دل کی لگن کے بغیر ہر دو صورت میں کمال کا درجہ نہیں مل سکتا ؛ اس لیے مفید امور کے حصول کے لیے جان مارے تو تبھی فائدہ ہو گا۔
اب چونکہ انسانی حرص اللہ تعالی کی مدد، مشیئت اور توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہے تو انسان کو اس حدیث میں یہ حکم دیا کہ: اللہ تعالی سے ہی مدد مانگے، تا کہ انسان حقیقی معنوں میں "إياك نعبد وإياك نستعين " کے مقام پر پہنچ جائے؛ اس لیے کہ مفید چیز کی حرص کرنا بھی اللہ تعالی کی عبادت ہے اور حرص والی چیز اللہ تعالی کی مدد کے بغیر ملنی بھی نہیں ہے، اسی لیے اللہ تعالی سے مدد مانگتے ہوئے اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا۔
پھر فرمایا: { وَلَا تَعْجَزْ} یعنی: عاجز مت بنو، مطلب یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھو؛ کیونکہ اس بیٹھنا حرص کے منافی ہے، اسی طرح اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے کے بھی منافی ہے؛ کیونکہ مفید امور کے حصول کے لیے حریص شخص جو کہ اللہ تعالی سے مدد بھی مانگ رہا ہو ، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا؛ تو گویا اس لفظ میں انسان کی رہنمائی کی گئی ہے کہ تقدیر میں لکھا ہوا ہونے سے پہلے اپنی منشا کے مطابق تگ و دو کرو، اور اس ذات سے مدد طلب کرو جس کے ہاتھ میں تمام امور کی باگ ڈور ہے، سب کاموں کے احکامات اسی ذات سے جاری ہوتے ہیں، اور سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
پھر اتنی جان مارنے کے بعد بھی اگر مطلوب نہ ملا: تو دو طرح کے رد عمل ہو سکتے ہیں: انسان حالت عجز میں ہو، اور یہی عجز شیطانی عمل کا آغاز ہے، اور انسان پھر کاش کاش کرنا شروع کر دیتا ہے، حالانکہ یہاں کاش کہنے کا فائدہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ الفاظ بول کر انسان ملامت، جزع فزع، اللہ کے فیصلے پر عدم رضا، افسوس اور ملال میں ملوث ہو جاتا ہے جو کہ سراپا شیطانی عمل ہے؛ اس لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شیطانی عمل کے نقطہ آغاز سے ہی منع فرما دیا، اور اسے دوسری حالت اپنانے کی طرف رہنمائی کی: کہ تقدیری فیصلے پر سارا معاملہ ڈال دے؛ کیونکہ اگر تقدیر میں اس کے لیے یہ لکھا ہوتا تو یہ لازمی ہونا تھا، کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا تھا، تو جب تقدیر میں ہی نہیں لکھا تھا تو کیسے ہو سکتا تھا؟ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر آپ کا متعلقہ کام نہ ہو تو پھر یہ نہ کہو کہ: کاش میں یہ کر لیتا اور وہ کر لیتا۔ بلکہ یوں کہو: اللہ تعالی کا تقدیری فیصلہ ایسے ہی تھا، اس نے جو چاہا کر دکھایا۔ یعنی انسان کو ہر دو حالتوں میں ایسی رہنمائی دی جو انسان کے لیے مفید ہو: یعنی انسانی مراد پوری ہو جائے تب بھی اور انسانی مراد پوری نہ ہو تب بھی! یہی وجہ ہے کہ یہ ایسی حدیث ہے کہ انسان اس حدیث سے کبھی رو گردانی نہیں کر سکتا، بلکہ ہمیشہ اس حدیث سے رہنمائی لے گا، اس حدیث میں تقدیر پر ایمان کا اثبات بھی ہے، بندے کے اپنے فعل اور اختیار کا بھی اثبات ہے، یہ حدیث ظاہری اور باطنی ہر دو طرح کی عبودیت کے اظہار کی ترغیب دلاتی ہے چاہے انسانی مراد پوری ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
ماخوذ از: شفاء العليل (18-19)
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کو دعائے استخارہ کی ضرورت رہتی ہے؛ اس دعا کے آغاز میں انسان حقائق کا اعتراف کرتا ہے اور اللہ تعالی کی قدرت تسلیم کرتا ہے، چنانچہ دعائے استخارہ میں انسان کہتا ہے: اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ [ترجمہ: یا اللہ! میں تجھے تیرے علم کا واسطہ دے کر تجھ ہی سے خیر مانگتا ہوں، اور تیری قدرت کا تجھے واسطہ دے کر تجھ ہی سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور میں تیرے فضل عظیم کا سوالی ہوں؛ کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے میں نہیں رکھتا، تو جانتا ہے میں نہیں جانتا، بلکہ تو علام الغیوب ہے۔]
اس بارے میں ہم تفصیلات پہلے دو سوالات: ( 11981 ) اور ( 2217 ) کے جوابات میں بیان کر چکے ہیں۔
دوم:
ہمارے مطابق درج ذیل چیزیں مسلمان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں:
1-مسلمان اللہ تعالی پر مکمل بھروسا اور توکل کرے، ہمیشہ اسی سے مدد اور نصرت طلب کرتا رہے؛ کیونکہ مسلمان اپنے رب کے بغیر کچھ نہیں ہے، جیسے کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ خود اعتمادی کسبی چیز ہے، اور کسبی چیزوں میں انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی اور توفیق کی ضرورت ہوتی ہے، تو جس قدر مسلمان کا اعتماد اللہ تعالی پر زیادہ ہو گا اتنا ہی مسلمان خود اعتمادی کے اعلی درجات پر فائز ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ جب موسی علیہ السلام اور ان کی قوم فرعون اور اس کے لشکر سے بھاگے اور جب دونوں آمنے سامنے ہوئے تو سیدنا موسی علیہ السلام کا اللہ تعالی پر اعتماد کھل کر سامنے آیا، جیسے کہ قرآن کریم میں ہے کہ:
فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ . قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ
ترجمہ: پس جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسی کے ساتھی کہنے لگے: یقیناً ہم تو پکڑے گئے! تو موسی نے کہا: ہر گز نہیں، یقیناً میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ میری رہنمائی فرمائے گا۔ [الشعراء: 61 – 62]
2- اپنے اندر متعلقہ خوبیاں تلاش کر کے انہیں پروان چڑھائے، اور اپنے آپ کو مضبوط کرے، اور اگر کوئی نقص اور خامی ہے تو اسے دور کرے۔
خود اعتمادی کو مزید ٹھوس بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی عطا کردہ خوبیوں اور کارناموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اس طرح آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو گا، جبکہ اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں کا علاج کریں، اور انہیں کمزوری سے اٹھا کر مضبوطی اور مہارت کی پہلی لائن میں لا کھڑا کریں۔
3-خود اعتمادی کی جستجو میں لگے ہوئے مسلمان کے لیے یہ بہت اہم چیز ہے کہ منفی باتیں اپنی زبان سے مت دہرائے، مثلاً: یہ مت کہے کہ : میرے اندر خود اعتمادی نہیں ہے! یا یہ مت سوچے کہ : وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
4-مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے کچھ اہداف متعین کرے، ترتیب وار ان اہداف کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کا جائزہ لیتا رہے؛ کیونکہ خود اعتماد شخص ہمیشہ اپنے اہداف کو پا لیتا ہے؛ کیونکہ اس نے منصوبہ بندی اچھے انداز سے کی ہوتی ہے اور اللہ تعالی اس کے بدلے میں اچھے نتائج عطا فرماتا ہے۔
5-مسلمان اپنے حلقہ احباب میں صرف ایسے لوگوں کو شامل کرے جو نیک لوگ ہوں؛ کیونکہ اس طرح انسان کے کامیابی کے مواقع مضبوط ہو جاتے ہیں اور انسان کے کامیاب ہونے پر اس کے دوست بھی خوش ہوتے ہیں، پھر مزید آگے بڑھنے کے لیے مکمل ترغیب بھی دلاتے ہیں، پھر اچھے دوست وہی ہوتے ہیں جو کمزوری کے پہلوؤں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، بلکہ اسے بہترین راہ پر چلنے کی رہنمائی بھی دیتے ہیں، اس طرح حلقہ احباب کے لوگ مسلمان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
6- ماضی میں کیے ہوئے تجربوں کو مت دہرائے، جہاں ناکامی ہوئی تھی وہاں دوبارہ مت جائے؛ کیونکہ اس طرح انسان کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے، انسان اپنی کامیابی کے پہلوؤں پر توجہ نہیں دے پاتا، جو کہ کسی بھی مسلمان کو پسند نہیں ہے۔
سوم:
مسلمان اپنے آپ پر کنٹرول کرے یہ ممکن ہے اور مسلمان اپنا ہدف درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یعنی اگر کسی مسلمان کو غصہ کرنے کی عادت ہو تو ، مسلمان کو اپنے آپ پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے غصے کو کنٹرول کر سکتا ہے، اور غصے کے برے نتائج سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ انسان اپنی اصلاح اور تہذیب کے لیے بھی کوشش کرتا رہے، اللہ تعالی کی شریعت کے بتلائے ہوئے راستے اپنی تربیت کرے، یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ بہت ہی آسان ہے، بس شرط یہ ہے کہ انسان کے پاس قوت ارادی ہو تو کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے۔
ہم نے پہلے سوال نمبر: (45647) اور (658) کے جواب میں غصے کے علاج کے متعلق شرعی طریقے بیان کیے ہیں، ان کا مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اپنی غصیلی طبیعت کا علاج جس نے کرنا وہ صرف عملی طور پر کام شروع کر دے، غصہ ویسے ہی ختم ہو جائے گا، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم عمل سے ہی جان چھڑاتے ہیں، ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ ذاتی تزکیہ کے لیے اقدامات کرتا رہے، اور اپنے آپ کو عملی شخصیت بنائے، اللہ تعالی نے جس کا حکم دیا ہے وہ کرے، اور جس سے روکا ہے اس سے رک جائے، اس طرح آپ کامیاب لوگوں میں شامل ہو جائیں گے۔
{ ولا تك ممَّن يُغلقُ الباب دونه عليه بمغلاق من العجز مقفلِ}
ان لوگوں کی طرح مت بنو جو اپنے سامنے دروازے کو عجز کے تالے کے ساتھ مقفل کر دیتا ہے۔
{ وَما المَرءُ إِلّا حَيثُ يَجعَلُ نَفسَهُ فَفي صالِح الأَعمالِ نَفسكَ فَاِجعَلِ}
کیونکہ انسان تو وہی کچھ ہوتا ہے جہاں انسان اپنے آپ کو رکھتا ہے، اس لیے تم اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھو
سوال نمبر: (22090 ) کے جواب میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ مسلمان اپنی تربیت کیسے کرے؟ اس کا مطالعہ مفید ہو گا۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات