سوال نمبر ( 112758 ) ميرا ہى ہے، ميں نے اپنا گھر والد صاحب كى ملكيت ميں نہيں ديا تا كہ والدہ اور بھائى كے حقوق محفوظ رہيں، ميرے والد صاحب نے مجھے بھائى اور ماں سميت گھر سے نكال ديا، اب ميرے ليے ايك دين والے نوجوان كا رشتہ آيا ہے، والد صاحب كہتے ہيں كہ وہ اس كے ساتھ ميرا عقد نكاح نہيں كرينگے كيونكہ ميں نے ان كى معاونت نہيں جو كہ شرعا جائز نہيں ہے.
ميں ان كى بيٹى نہيں كيونكہ ميں نے گھر اپنے والد كے نام منتقل نہيں كيا، مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
كيا مجھے حق حاصل ہے كہ ميرا چونتيس سالہ چھوٹا بھائى ميرا نكاح كر دے، كيونكہ ميرا بڑا بھائى سفر پر گيا ہوا ہے وہ يہاں نہيں آ سكتا ؟
باپ شادى نہ كرے تو كيا بھائى اپنى كى شادى كر سكتا ہے ؟
سوال: 115405
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے والد كو ہدايت دے اور آپ سب كے حالات كى اصلاح فرمائے اور آپ كے دلوں ميں الفت محبت ڈالے.
ولى كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى ولايت ميں موجود لڑكى كو كسى كفو اور مناسب رشتہ آنے اور لڑكى كے اس رشتہ پر راضى ہونے كے باوجود شادى نہ كرے، اگر لڑكى اس رشتہ پر راضى ہو تو ولى كو اس كى شادى كر دينى چاہيے.
جب ايسا ثابت ہو جائے كہ ولى مناسب رشتہ آنے پر بھى ولى اس كى شادى نہيں كر رہا تو اس حالت ميں ولايت اس سے بعد والے عصبہ ولى كو منتقل ہو جائيگى، جو كہ يہاں بھائى ہے، اگر آپ كے ہاں شرعى قاضى ہو تو آپ اپنا معاملہ قاضى كے سامنے ركھيں تا كہ وہ آپ كے والد كو آپ كى شادى كرنے كا حكم دے.
ليكن اگر تو شادى كرنے سے انكار كر دے تو پھر ولايت منتقل ہو كر آپ كے بھائى كو مل جائيگى، اور اگر شرعى قاضى نہ ہو تو پھر آپ كے بھائى كے ليے شادى كى ذمہ دارى نبھانے ميں كوئى حرج نہيں.
ايسا كرنا باپ كى نافرمانى اور سوء ادب شمار نہيں كيا جائيگا، بلكہ عورت كى شادى اور اس كى عفت و عصممت اور عورت سے ولى كے تسلط كور وكنے كا مشروع طريقہ يہى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب عورت كا ولى كسى مناسب اور دينى اور اخلاقى كفو و برابرى كا رشتہ آنے پر عورت كى شادى نہ كرے تو ولايت اس سے منتلق ہو كر اس كے بعد قريب ترين عصبہ مرد ميں چلى جائيگى، اور اگر سارے ولى ہى انكار كر ديں جيسا كہ غالب ميں ہوتا ہے تو پھر ولايت شرعى حاكم كو منتقل ہو جائيگى، اور شرعى حاكم اس عورت كى شادى كرائيگا.
شرعى حاكم پر ضرورى اور واجب ہے كہ اگر معاملہ اس تك پہنچے اور اسے علم ہو جائے كہ اس عورت كے اولياء نے اس عورت كى شادى كرنے سے انكار كر ديا ہے تو وہ شرعى حاكم اس كى شادى كرائے، كيونكہ جب ولايت خاصہ حاصل نہ ہو تو حاكم شرعى كو عمومى ولايت حاصل ہوتى ہے.
اور پھر فقھاء كرام نے ذكر كيا ہے كہ جب كفو و برابرى كا مناسب رشتہ ولى بار بار رد كر دے تو اس سے وہ فاسق جائيگا اور اس طرح اس كى ولايت ساقط ہو جائيگى، بلكہ امام احمد رحمہ اللہ كا مشہور مذہب تو يہ ہے كہ اس كى امامت بھى ساقط ہو جائيگى، اس ليے وہ نماز ميں امام بھى نہيں بن سكتا، اور يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.
جيسا كہ ابھى ہم نے اشارہ كيا ہے كہ بعض لوگ اپنے ولايت ميں موجود عورت اور لڑكى كا مناسب اور كفو و برابرى كا رشتہ آنے پر وہ رشتہ رد كر ديتے ہيں، ليكن لڑكى قاضى كے پاس اپنا معاملہ لانے سے شرماتى ہے تا كہ وہ اس كى شادى كرے، اور يہ چيز فى الواقع پائى جاتى ہے.
ليكن اس لڑكى كو چاہيے كہ وہ مصلحت اور خرابى و مفاسد دونوں ميں موازنہ كرے كہ ان ميں كونسى چيز زيادہ اور شديد ہے، آيا وہ بغير شادى كے رہے اور اس كا ولى اپنے مزاج كے مطابق اس پر حكم چلاتا پھرے، اور اگر وہ زيادہ عمر كى ہو گئى تو اس كا كوئى رشتہ بھى نہيں لےگا، يا پھر قاضى كے پاس جا كر اپنا مقدمہ پيش كرے كہ وہ شادى كرنا چاہتى ہے حالانكہ يہ اسے شرعى حق بھى ہے.
بلاشك و شبہ دوسرا عمل يعنى قاضى كے پاس جانا بہتر اور اولى ہے كہ قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے كيونكہ يہ اس كا حق ہے؛ اور اس ليے بھى كہ اس كا قاضى كے پاس جانا اور قاضى كا اس كى شادى كرانے ميں دوسرى عورت كے ليے بھى مصلحت پائى جاتى ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے جس طرح يہ قاضى كے پاس اپنا مقدمہ لائى ہے دوسرى عورت بھى اپنا مقدمہ لے آئے.
اور اس ليے بھى كہ اس كا قاضى كے پاس اپنا مقدمہ لانا اس طرح كے ظالم افراد كے ليے ظلم سے ركنے كا باعث اور سبب بنے گا جو اپنى ولايت ميں موجود لڑكيوں پر ظلم كرتے اور انہيں برابر اور مناسب رشتہ آنے پر بھى شادى سے روك ديتے ہيں يعنى اس طرح اس ميں تين قسم كى مصلحتيں پائى جاتى ہيں:
پہلى: اس عورت كے ليے مصلحت يہ ہے كہ وہ شادى كے بغير نہيں رہےگى.
دوسرى مصلحت: اس كےعلاوہ دوسرى عورت كے ليے مصلحت ہے كہ دوسرى عورتوں كے ليے بھى دروازہ كھل جائيگا كہ وہ اس انتظار ميں ہيں كہ كوئى مقدمہ لے كر جائے تو وہ بھى اس كى اتباع كريں.
تيسرى مصلحت يہ ہے كہ: اس طرح كے ظالم وليوں كو ظلم سے روكا جا سكےگا جو اپنى بيٹيوں اور يا پھر اللہ نے جن پر ان كو ولى بنايا ہے وہ ان پر اپنے مزاج كے مطابق حكم چلاتے پھرتے ہيں.
اور پھر اس ميں يہ مصلحت بھى پائى جاتى ہے كہ اس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر بھى عمل ہو جائيگا:
” جب تمہارے پاس كوئى ايسا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے اپنى بيٹى كا نكاح كر دو اگر ايسا نہيں كرو گے تو پھر زمين ميں لمبا چھوڑ فساد بپا ہو گا ”
اور اس طرح اس ميں ايك خاص مصلحت يہ بھى پائى جاتى ہے كہ اس طرح ان افراد كى حاجت بھى پورى ہو گى جو عورتوں كا رشتہ طلب كرتے ہيں اور وہ دينى اور اخلاقى طور پر اس كے برابر اور كفو كا ہوتا ہے ” انتہى
منقول از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 148 ).
دوم:
اگر عورت كے ايك ہى مرتبہ اور درجہ ميں ايك سے زائد ولى ہوں مثلا سگے بھائى تو ان سب كا اپنى بہن كى شادى كرنا صحيح ہے، يہ شرط نہيں كہ بڑا بھائى ہى شادى ميں ولى بنے بلكہ كوئى بھى بن سكتا ہے.
مزيد آپ مطالب اولى النھى ( 5 / 72 ) كا بھى مطالعہ كريں.
اس بنا پر آپ كا چھوٹا بھائى شادى ميں آپ كا ولى بن كر شادى كر سكتا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے سارے معاملات آسان كرے، اور آپ كو ايسے اعمال كى توفيق نصيب فرمائے جن سے اللہ تعالى راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند فرماتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب