ميں نے ڈيڑھ برس قبل ايك مسلمان شخص سے شادى كى اور پھر شادى كے ايك برس اور ايك ماہ بعد ميں نے اسلام قبول كر ليا ہمارى يہ شادى اسلامى تھى ميرے والدين كى موافقت طلب كى گئى اور شادى كے دو گواہ بھى تھے، مجھے مہر كے بارہ ميں بھى دريافت كيا.
ليكن ہم نے عقد نكاح تحرير نہيں كيا، تو كيا ہمارے ليے عقد نكاح تحرير كرناضرورى ہے، اور كيا ہمارى شادى صحيحح ہے ؟ ميرا ولى نہيں ہے كيا ولى كى موجودگى كى ضرورت ہے يا نہيں ؟
عقد نكاح لكھے بغير شادى كر لى تو كيا نكاح دوبارہ كيا جائيگا ؟
سوال: 116994
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم آپ كو دين اسلام قبول كرنے پر مباركباد ديتے ہيں كيونكہ دين اسلام سب سے عظيم نعمت ہے، اور اسى طرح ہم آپ كو شادى كى بھى مبارك ديتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ يہ نعمت آپ پر ہميشہ كے ليے ركھے اور اپنا فضل و كرم اور زيادہ فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند اور اولاد عطا كرے.
دوم:
اگر شادى آپ كے والد كى رضامندى اور دو گواہوں كى موجودگى ميں ہوئى ہے تو يہ شادى صحيح ہے؛ عقد نكاح يا مہر تحرير نہ كرنے كا كوئى نقصان نہيں، ليكن عقد نكاح كو احاطہ تحرير ميں لانا اور رجسٹر كرانا چاہيے حقوق محفوظ رہيں.
اس ليے كہ آپ كى شادى اسلام قبول كرنے سے قبل ہوئى اور آپ كا والد بھى آپ كا ہى دين ركھتا تھا تو آپ كا ولى وہى ہے، ليكن عقد نكاح ميں جو كچھ طے ہوا تھا اگر آپ اسے احاطہ تحرير ميں لائيں تا كہ نكاح كى توثيق ہو جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اب آپ كا والد آپ كا ولى نہيں بن سكتا كيونكہ آپ مسلمان ہيں اور وہ مسلمان نہيں، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 48992 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن اس وقت نكاح كے صحيح ہونے كے ليے آپ ولى كى محتاج نہيں، جيسا كہ ہم پہلے بيان كر چكے ہيں.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات