مسلمانوں كے ليے كفار كى قبروں كى زيارت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
مسلمانوں كے ليے كفار كى قبروں كى زيارت كرنے كا حكم
سوال: 11890
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اسلام كے علاوہ كسى اور دين پر مرنے والے شخص كى قبر كى زيارت كرنى صرف عبرت حاصل كرنے كے ليے جائز ہے.
اس كى دليل ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى والدہ كى قبر كى زيارت كى تو رونے لگے اور آپ كے ارد گرد والے لوگوں كو بھى رلا ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں نے اپنے رب سے والدہ كى بخشش كے ليے دعا كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت نہ دى گئى، اور ميں نے اللہ تعالى سے اپنى والدہ كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو اللہ تعالى نے مجھے اجازت دے دى، لھذا تم قبروں كى زيارت كيا كرو، كيونكہ وہ تمہيں موت كو ياد كراتى ہے"
اسے مسلم ( 3 / 65 ) اور ابو داود ( 2 / 72 ) سنن نسائى ( 1 / 286 ) اور ابن ماجۃ اور حاكم، اور بيھقى اور احمد نے روايت كيا ہے.
اور اسى طرح بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ كى روايت كردہ حديث ميں ہے كہ:
" ہم ايك سفر ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے.
اور ايك روايت ميں ہے كہ:
" غزوہ فتح مكہ كے سفر ميں تھے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ساتھ ايك جگہ پڑاو كيا اور ہم ان كے ساتھ تقريبا ايك ہزار سوار تھے، تو وہاں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ركعت ادا كيں اور پھر ہمارى طرف متوجہ ہوئے تو ان كى آنكھوں سے آنسو جارى تھے، تو عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے كھڑے ہو كر كہا:
ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ كو كيا ہوا ( رو كيوں رہے ہيں ) ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں نے اپنے رب سے اپنى والدہ كى استغفار كے ليے دعا كرنے كى اجازت طلب كى تو اللہ تعالى نے مجھے اجازت نہ دى، تو آگ كى بنا پر اپنى والدہ پر بطور شفقت اور رحمت ميرى آنكھوں ميں آنسو آگئے، اور ميں نے اپنے رب سے اس كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت دے دى گئى، بلا شبہ ميں نے تمہيں قبروں كى زيارت سے منع كيا تھا، تو ان كى زيارت كيا كرو، ان كى زيارت كرنا تمہيں خير وبھلائى ميں زيادہ كرے گى"
مسند احمد ( 5 / 355 – 359 ) اور ابن ابى شيبۃ ( 4 / 139 ) اور ابن حبان، اور حاكم رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے، اور دوسرے زيادہ الفاظ حاكم كے ہيں، اور ان كا كہنا ہے كہ: ( يہ حديث صحيح اور شيخين، يعنى بخارى اور مسلم كى شرط پر ہے )
اور امام ذھبى نے اس كى موافقت كى ہے، اور وہ اسى طرح ہے جيسا كہ انہوں نے كہا ہے، اور امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے اسے مختصرا روايت كيا اور اسےصحيح قرار ديا ہے.
اور جب كوئى شخص كافر كى قبر كى زيارت كرے تو اس پر سلام نہ پڑھے اور نہ ہى اس كے ليےدعا كرے، بلكہ اسے آگ ميں جانے كى نويد سنائے.
اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
سعد بن ابو وقاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك اعرابى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا:
ميرا باپ صلہ رحمى كيا كرتا تھا، اور يہ يہ كام كيا كرتا تھا، لھذا وہ كہاں ہے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آگ ميں" ايسے محسوس ہوا كہ اس اعرابى نے اس سے كچھ محسوس كيا تو عرض كرنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ كا والد كہاں ہے؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جہاں بھى جس كافر كى قبر كے پاس سے گزرو تو اسے آگ ميں جانے كى خوشخبرى اور نويد سنايا كرو"
راوى كہتے ہيں كہ وہ اعرابى مسلمان ہو گيا، اور بعد ميں كہنے لگا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بہت تھكا دينے والى چيز كا مكلف كيا ہے ! جس كافر كى قبر كے پاس سے بھى گزرو اسے آگ كى نويد سناؤ"
اسے طبرانى نے المعجم الكبير ( 1 / 191 ) ميں اور ابن سنى نے عمل اليوم و الليلۃ ( 588 ) اور الضياء المقدسى نے الاحاديث المختارۃ ميں صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.
اور الھيتمى رحمہ اللہ تعالى ( 1 / 117 – 118 ) كہتے ہيں: اسے بزار اور طبرانى نے الكبير ميں روايت كيا ہے، اور اس كے رجال صحيح ہيں.
اور اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى مرفوع حديث بھى ہے جس ميں ہے كہ:
" جب تم اہل جاہليت ميں سے اپنى اور ہمارى قبروں كے پاس سے گزرو تو انہيں بتاؤ كہ وہ جہنمى ہيں"
اسے ابن سنى نے اليوم والليلۃ ميں روايت كيا ہے، اس كى سند ميں يحيي بن يمان ہے جو محمد بن عمر سے سيئ الحفظ ہے، اور ميں اس سے عن ابى سلمہ كا علم نہيں ركھتا، ليكن ظاہر يہ ہوتا ہے كہ وہ ابن عمرو عين كے فتح اور ميم پر جزم اور راء كے بعد واو كے ساتھ ہے، طباعت ميں حرف واو ساقط ہو چكا ہے، اور يہ حسن الحديث ہے.
ماخذ:
ماخوذ از: مختصر احكام الجنائز للالبانى ( كچھ كمى و بيشى كے ساتھ )