سوال: بسا اوقات کچھ بھائیوں کے موبائل کی گھنٹی خطبہ جمعہ کے دوران بجنے لگتی ہے، اور کچھ تو حیا باختہ موسیقی پر مشتمل ہوتی ہیں، اگر دورانِ خطبہ کسی کے موبائل کی گھنٹی بجے اور وہ اسی وقت موبائل بند کردے، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل اسی لغو میں شمار ہوگا جس کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث مبارکہ میں اشارہ کیا ہے؟ اور حدیث میں مذکور الفاظ "اس نے لغو کام کیا" اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ اسکا جمعہ نہیں ہے؟ یعنی اسکا اجر نماز ظہر والا ہوگا، اور جمعہ کا اجر نہیں ملے گا؟.
کیا جمعہ کے خطبہ کے دوران موبائل بند کرنا ایسا لغو کام ہے جس سے جمعہ کا اجر ضائع ہو جاتا ہے؟
سوال: 119636
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
موبائل فون میں موسیقی پر مشتمل رنگ ٹونز استعمال کرنا گناہ اور حرام ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گانے بجانے کے آلات کو حرام قرار دیا ہے، اس بارے میں مزید تفصیل کیلئے پڑھیں: (47407)
اور خطبہ جمعہ کے دوران موبائل فون بجنے پر اسے بند کرنا ضروری ہے، چاہے رنگ ٹون جائز ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ موبائل فون کے بجنے سے خطیب اور دیگر نمازیوں کوتشویش لاحق ہوتی ہے ،اور خطبہ سننے میں دشواری ہوتی ہے، اور خطبہ سننا واجب ہے۔
ہمیں امید ہے کہ دوران خطبہ موبائل بند کرنا اس لغو میں شمار نہیں ہوگا، جس کی طرف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے، مذکورہ لغو وہ ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے: (جو شخص کنکریوں کو چھیڑے، اس نے لغو عمل کیا) مسلم: (857)
کیونکہ یہ حدیث اس شخص پر صادق آتی ہے جو ایسا عمل کرے جس سے خطبہ جمعہ سننے میں رکاوٹ پیدا ہو، مثلاً: موبائل اور مصلی وغیرہ کیساتھ مصروف ہونا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں حدیث نمبر: (934) کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
"تمام اہل علم کا کہنا ہے کہ جس شخص کو خطبہ کے دوران کسی اچھے کام کے حکم کی ضرورت پڑے یا غلطی سے روکنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ اشارے سے یہ کام کر سکتا ہے۔
اور نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں خطبہ کے دوران ہر قسم کی گفتگو کرنے سے منع کیا گیا ہے۔۔۔ اور کسی کو منع کرنا مقصود بھی ہو تو خاموشی کیساتھ بذریعہ اشارہ منع کرے بشرطیکہ مقابل شخص اشارے سے بات سمجھ سکتا ہو " انتہی
اس بنا پر کسی صحیح مقصد کیلئے تھوڑی بہت حرکت لغو اور فضول کام میں شمار نہیں ہوگی، اور دورانِ خطبہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جمعہ کے دوران فضول حرکت کرنے والے شخص کے بارے میں فرمان : (اس کا جمعہ نہیں ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ظہر کی نماز کا ثواب ملے گا، اور نماز جمعہ کے ثواب سے محروم رہے گا۔
چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے [دوران خطبہ جمعہ] لغو کام کیا، اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں تو اس کا جمعہ [نماز]ظہر بن جائے گا) ابو داود: (347) اسے البانی نے "صحیح ابو داود " میں حسن قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نضر بن شمیل کہتے ہیں: حدیث کے الفاظ"لغوت" [یعنی: تم نے لغو کام کیا] کا مطلب یہ ہے کہ: "تم اجر سے محروم ہوگئے" یہ بھی کہا گیا ہے کہ: "تمہارے لئےجمعہ کی فضیلت لغو ہوگئی" ایک قول یہ بھی ہے کہ: "تمہارا جمعہ ظہر میں تبدیل ہوگیا"
میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ: لغت کے اعتبار سے یہ تمام اقول قریب ترین ہیں، اور آخری قول کے لیے ایک شاہد ابو داود اور ابن خزیمہ نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ: (جس شخص نے لغو کام کیا، اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، تو اسکا جمعہ ظہر بن جائے گا) اس حدیث کے ایک راوی ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ : "اس کی نماز تو ہو جائے گی، لیکن جمعہ کی فضیلت سے محروم ہو جائے گا"" انتہی
" فتح الباری " ( 2 / 414 )
بدر الدین عینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حدیث کے الفاظ: (كانت له ظهراً) کا مطلب یہ ہے کہ اسکا جمعہ ظہر بن جائے گا، یعنی جمعہ کی جو فضیلت اسے ملنی تھی وہ اسے نہیں ملے گی، کیونکہ اس فضیلت کی شرائط پوری نہیں تھیں" انتہی
" شرح سنن أبی داود " ( 2 / 169 )
اس لئے نماز جمعہ کیلئے آنیوالے افراد پر ضروری ہے کہ شعائر الہی کی تعظیم کریں، اور اس کیلئے اپنے اعضاء کو فضول حرکتوں، اور زبان کو گفتگو سے پاک رکھیں، وگرنہ اسے گناہ ہوگا، اور اس کا جمعہ ظہر میں تبدیل ہو جائے گا۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"یقینی بات ہے کہ ایک مسلمان کو سکون اور اطمینان کیساتھ خطبہ غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے، لہذا اسے دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے:
1- سکون اور اطمینان،اور فضول حرکتوں سے اجتناب ۔
2- ہر قسم کی گفتگو سے اجتناب ، چنانچہ اس کیلئے خطبہ کے دوران بات کرنا حرام ہے،اور اسی طرح فضول حرکت کرنا، کنکریوں کو چھیڑنا، زمین پر خطوط کھینچنا وغیرہ بھی حرام ہے" انتہی
" المنتقى من فتاوى شیخ صالح الفوزان " ( 5 / 71 )
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب