مجھے مشکل یہ ہے کہ میں کچھ ہی مدت قبل پردہ کرنا شروع کیا ہے اورجس شہرمیں میں رہائش پزیرہوں وہاں باپرد عورتوں کی تعداد نہ ہونے کی برابر ہے اس لیے کہ یہ شہربہت ہی چھوٹا ہے ، اورمیں نے اسلام بھی کچھ مدت قبل قبول کیا ہے ۔
میں افریقی الاصل ہونے کے ساتھ ساتھ امریکن نیشنلٹی ہولڈر ہوں اورمیرا خاوند باکستانی ہے اورہماری شادی کوچار برس ہوچکے ہیں میرا خاوند میرا پردہ کرنا پسند نہیں کرتا اورنہ ہی وہ یہ پسند کرتا ہے کہ میں باپرد ہوکر اس کے ساتھ گھر سے باہر نکلوں تواس سلسلے میں مجھے کچھ علم نہیں کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
میرے لیے ان حالات میں پردہ کرنا بہت مشکل ہے ، لیکن مجھے اس کا علم توہے کہ یہ ضروری اورجنت میں جانے کا راستہ بھی یہی ہے توکیا میں طلاق کا سوچ سکتی ہوں ؟
دین اسلام مجھ سے بہت کچھ چاہتا ہے ، میرا خاوند صرف نماز جمعہ جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے اورمیں نئ نئ مسلمان ہوئ ہوں اس مشکل کیا بنا پرکئ بار روئ ہوں ۔
باپرد عورت کے مصائب
سوال: 11967
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب سے پہلے توہم آپ کواس بات کی مبارکباد دیتےہيں کہ اللہ تعالی نے آپ کودین حق جوکہ سب ادیان کے لیے خاتم الادیان دین اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائ ، میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہميں اورآپ کوموت تک دین اسلام پر ثابت قدم رکھے ، آمین یارب العالمین ۔
میں آپ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کےقول کی خوشخبری سناتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ یہ فرمایا تھا :
( بلاشبہ تمہارے بعد ایام صبر ہیں ان دنوں میں دین اسلام کا التزام کرنے والے کو جس پر تم ہوتم میں سے پچاس کا اجر دیا جاۓ گا ، توصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نےعرض کیا کیا ان میں سے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ تم میں سے ) اسے ابن نصر نے روایت کیا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعلای نے سلسلۃ احادیث صحیحۃ ( 494 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
آپ طلاق کا سوچنے سے قبل اپنے خاوند اور جوآپ کے اردگرد ہيں ان کے لیے ایک داعی یعنی دعوت دینے والے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں ، اس میں دوسروں کے لیے تو نفع اورآپ کے لیے ثابت قدمی ہے ۔
اس میں آپ کا آئڈیل اورنمونہ آپ سے پہلے گزری ہوئ مومن اورصالحہ عورتیں ہیں جنہوں نے ایک داعیہ کا کردار ادا کیا مثلا ام المومنین خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا جنہوں نے بعثت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی ڈھارس بندھائ ۔
حتی کہ ان کی وفات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی انہیں یاد فرماتے تو ان کی بہت ہی اچھی اورزيادہ تعریف بیان کرتے ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کیا ذکر کیا گیا توآپ نے ان کی بہت اچھی تعریف کی ۔ مسند احمد حدیث نمبر ( 24684 ) اورامام ھیثمی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اورام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کی طرح : جب ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ان کوشادی کا پیغام دیا تو وہ کہنے لگیں :
اللہ کی قسم تیرے جیسے کورد نہیں کیا جاسکتا لیکن تو کافرآدمی ہے اورمیں ایک مسلمان عورت ہوں میرے لیے تیرے ساتھ شادی کرناحلال نہیں ہاں اگر تومسلمان ہوجاۓ تومیرا مہر بھی یہی ہوگا توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کا مہر ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ کا اسلام قبول کرنا تھا ۔ سنن نسائ حدیث نمبر ( 3341 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعال نے اسے صحیح نسائ ( 3133 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
اللہ تعالی آپ کوتوفیق دے آپ اپنے خاوند کومختلف وسائل استعال کرتے ہوۓ اسلام پرچلنے اوراس کے فرائض پرالتزام کرنے کی دعوت ديں مثلا نماز کی پابندی کرنے اوراسے پردہ کے متعلق بھی مطمئن کریں ، جب کہ وہ اسلام توپہلے ہی قبول کیے ہوۓ ہے ، اورآپ کا اپنے خاوند کو دعوت دینا ایک جنت کی طرف جانے والا راہ ہے ۔
اورمجھے یہ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی نصیحت کی بنا پرآپ کے خاوند کوھدایت نصیب کرے گا ، اورپھرآپ اس کی دعا بھی کثرت سے کیا کریں ، اورجب کچھ مدت اسی حالت پرگزر جاۓ اورآپ کواس میں کچھ تبدیلی اوربہتری نظر نہ آۓ اورآپ یہ سمجھیں کہ آپ کوشادی کے لیے اس سے بھی بہتر شخص مل سکتا ہے توپھر وہ آپ کے اس خاوند ہے اس بہتر ہے ، توپھر آپ اس وقت طلاق کا سوچیں وگرنہ نہیں ۔
یہ تواس وقت ہے کہ اگر وہ نماز میں سستی کرتا ہے کہ کبھی پڑھ لی اورکبھی نہیں پڑھتا ، لیکن اگر وہ بالکل حتی کہ اکیلا بھی نماز نہیں پڑھتا تو اس حالت میں اس کے ساتھ باقی رہنا جائزنہيں اس لیے کہ نماز ترک کرنا اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( ہمارے اوران ( کافروں ) کے درمیان معاھدہ ( حدفاصل ) نماز ہے جوبھی نماز کوچھوڑے گا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2621 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 463 ) اوردوسری کتابوں میں بھی موجود ہے ، یہ حدیث صحیح ہے دیکھیں مشکاۃ حدیث نمبر ( 574 ) ۔
اورایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( آدمی اورکفروشرک کےدرمیان ( حدفاصل ) نمازکا ترک کرنا ہے ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 82 ) ۔
اورآپ کے لیے اگر پردہ کرنا مشکل بھی ہے توپھر بھی آپ اس پر صبر کریں اورپردہ کرتی رہیں ، ہم سے پہلے کتنے ہی صحابہ کرام اورصحابیات میں ہمارے لیے قدوہ اورنمونہ ہیں جنہوں نے مشکلات کا سامنا کیا اوراللہ تعالی کے راستے میں تکلیفیں اٹھائيں ۔
ان کے مقابلہ میں ہمیں توکچھ بھی تکلیف نہیں پہنچی ، اورپھر یہی جنت کا راستہ ہے ، بلاشبہ جنت کوناپسندیدہ چيزوں اورمشکلات سے گھیرا گیا ہے اور جہنم کی آگ کے ارد گرد شہوات کی باڑ لگائ گئ ہے ۔
آپ یہ یقین کرلیں کہ پردہ کی پابندی میں مشکلات صرف اس کی ابتدا اورنۓ ہونے کی بنا پر ہیں ، صبر اور ایمان کے ساتھ ان شاء اللہ یہ مشکل اورتنگی راحت واطمنان اورآسانی میں بدل جاۓ گی اور اجروثواب کے انتظار میں مشکلات آسان ہوجاتیں ہیں ۔
اورپھر مشکلات میں بھی پردہ کی پابندی کرنا قوی ایمان کی نشانی ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اورآپ کودین اسلام پر ثابت قدم رکھے ، آمین یا رب العالمین ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب