0 / 0
6,04428/12/2010

بيوى سے ظھار كيا اور كفارہ ادا كيے بغير جماع بھى كر ليا اور اولاد بھى ہے اب كيا كرے ؟

سوال: 121076

ميں نے اپنى بيوى سے كہا تم مجھ پر ميرى ماں كى طرح حرام ہو، اور اس كے بعد ميں نے جماع بھى كيا اور اولاد بھى پيدا ہوئى، ليكن ميں نے ظھار كا كفارہ ادا نہيں كيا، نہ تو ميرے پاس مال ہے اور نہ ہى ميں دو ماہ كے روزے ركھ سكتا ہوں، ميں اللہ اللہ كےہاہ توبہ واستغفار كر چكا ہوں، مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سوال ميں وارد لفظ حرام كردہ ظھار كے الفاظ ميں سے ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز قرآن مجيد ميں بيان كيا ہے كہ يہ نامعقول اور جھوٹى بات ہے، اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے ليے ايسا كہنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى بيوى اس كى ماں ہے، اور نہ ہى ماں كى طرح، اس ليے اسكى بيوى اس كے ليے حلال ہے، اور اس كى ماں اس پر حرام ہے.

خاوند كا اپنى بيوى كو اپنے ليے اپنى ماں كى طرح حرام كا قول كہنے والے پر كفارہ مغلظہ ہے، اور وہ ايك مسلمان غلام آزاد كرنا، اور اگر يہ نہ پائے تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ركھے تو وہ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلائے.

اس منكر قول كے كہنے كے بعد اس كے ليے بيوى سے اس وقت تك جماع حلال نہيں جب تك كہ وہ كفارہ ادا كر لے يعنى يا تو غلام آزادا كرے يا پھر روزے ركھے يا پھر ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلائے، اور اگر اس سے قبل جماع كر ليا تو وہ گنہگار ہوگا اور كفارہ ادا كرنےتك اسے جماع سے ركنا لازم ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم ميں سے جو لوگ اپنى بيويوں سے ظھار كرتے ہيں ( يعنى انہيں ماں كہہ بيٹھتے ہيں ) وہ در اصل ان كى مائيں نہيں بن جاتيں، ان كى مائيں تو وہى ہيں جن كے بطن سے وہ پيدا ہوئے ہيں، يقينا يہ لوگ ايك نامعقول اور جھوٹى بات كہتے ہيں، بيشك اللہ تعالى معاف كرنے والا اور بخشنے والا ہے

جو لوگ اپنى بيويوں سے ظھار كريں پھر اپنى كہى ہوئى بات سے رجوع كر ليں تو ان كے ذمہ آپس ميں ايك دوسرے كو ہاتھ لگانے سے قبل ايك غلام آزاد كرناہے، اس كے ذريعہ سے تم نصيحت كيے جاتے ہو اور اللہ تعالى تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے

ہاں جو شخص نہ پائے اس كے ذمہ دو مہينوں كے لگار تار روزے ہيں اس سے پہلے كہ ايك دوسرے كو ہاتھ لگائيں اور جس شخص كو يہ طاقت بھى نہ ہو اس پر ساٹھ مسكينوں كا كھانا كھلانا ہے، يہ اس ليے كہ تم اللہ كى اور اس كے رسول كى فرمانبردارى كرو، يہ اللہ تعالى كى مقرر كردہ حديں ہيں اور كفار ہى كے ليے دردناك عذاب ہے المجادلۃ ( 2 – 4 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” ظھار حرام ہے، ايسا كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بتايا ہے يہ ” نامعقول اور جھوٹى بات ہے ” اور يہ دونوں حرام ہيں، اس كے منكر اور جھوٹا ہونے ميں فرق يہ ہے كہ: قول: ” تم مجھ پر ميرى ماں كى پيٹھ جيسى ہو ” يہ اس كى خبر كو متضمن ہے اور اس كى حرمت كو پيدا كر رہى ہے، چنانچہ يہ اپنے ضمن ميں خبر اور انشاء ليے ہوئے ہے، چنانچہ يہ خبر جھوٹى ہے اور منكر انشا ہے؛ كيونكہ جھوٹ باطل ہے بخلاف ثابت شدہ حق كے، اور منكر معروف كے خلاف ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے فرمان كے آخر ميں يہ فرمايا ہے:

اور يقينا اللہ سبحانہ و تعالى معاف كرنے اور بخشنے والا ہے المجادلۃ ( 2 ).

اس ميں يہ يہ محسوس كرايا گيا ہے كہ اگر اللہ سبحانہ و تعالى كى بخشش اور معافى نہ ہوتى تو اس كے گناہ كے بدلے اللہ كى پكڑ آ جاتى.

ديكھيں: زاد المعاد في ھدي الخير العباد ( 5 / 326 ).

دوم:

علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ جس نے بھى كفارہ ادا كرنے سے قبل جماع كيا تو اس كا كفارہ ساقط نہيں ہوگا اور نہ ہى ڈبل ہوگا، بلكہ اس پر وہى پہلا كفارہ ادا كرنا لازم ہے اور اس كے ساتھ توبہ بھى ضرورى و واجب ہے، اور فورى طور پر جماع سے رك جائے حتى كہ كفارہ ادا كرے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” كفارہ ادا كرنے سے قبل جماع كرنے سے كفارہ ساقط نہيں ہو گا، اور نہ ہى ڈبل ہوتا ہے، بلكہ وہ كفارہ اسى طرح ايك كفارہ ہى ہوگا، جيسا كہ اس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم دلالت كرتا ہے جو اوپر بيان كيا جا چكا ہے.

صلت بن دينار كہتے ہيں كہ ميں نے دس فقھاء سے ظھار كرنے كے بعد كفارہ ادا كرنے سے قبل جماع كرنے والے كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا اس پر ايك كفارہ ہى ہے.

انہوں كہا: اور وہ فقھاء حسن، اور ابن سيرين اور مسروق، بكر، قتادہ، عطاء، طاؤوس، مجاہد اور عكرمہ اور ميرے خيال ميں دسويں نافع ہيں، اور آئمہ اربعہ كا بھى يہى قول ہے ”

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 243 ).

سوم:

ہمارے سائل بھائى آپ سے كفارہ ساقط نہيں ہوگا الا يہ كہ آپ نہ تو غلام آزاد كرنے كى استطاعت ركھتے ہوں، اور روزے ركھنے سے بھى عاجز ہوں اور اسى طرح كھانا كھلانے سے بھى عاجز ہوں.

اصل ميں اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، كچھ تو عاجز ہونے كى صورت ميں كفارہ كے سقوط كے قائل ہيں، اور كچھ كى رائے ہے كہ وہ اس كے ذمہ باقى رہے گا، اور راجح يہى ہے كہ مكمل عاجز ہونے كى صورت ميں ساقط ہو جائيگا.

شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” راجح قول يہى ہے كہ يہ كفارہ ساقط ہو جائيگا، اور باقى سب كفارات ميں بھى ہم ايسے ہى كہيں گے كہ: جب وہ كفارہ كى ادائيگى پر واجب ہونے كے وقت قادر نہ ہو تو وہ كفارہ اس سے ساقط ہو جائيگا، يا تو رمضان ميں وطئ كرنے كے كفارہ پر قياس كرتے ہوئے، اور يا پھر اس كے اللہ كے عمومى فرمان ميں داخل ہونے كى بنا پر.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ كا تقوى اسى قدر اختيار كرو جس قدر تم ميں استطاعت ہے التغابن ( 16 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا الطلاق ( 7 )

اور اس طرح كى دوسرى آيات، اس بنا پر حيض كى حالت ميں وطئ كرنے كا كفارہ ـ جب ہم كہيں كہ حيض كى حالت ميں وطئ كرنے سے كفارہ واجب ہوتا ہے ـ ساقط ہوجائيگا.

اور اگر وہ احرام كى حالت ميں بيمارى كى بنا پر اذيت كا فديہ نہ پائے اور نہ ہى روزے ركھنے كى استطاعت ہو تو ساقط ہو جائيگا، اس مسئلہ ميں ہم جس سے استدلال كيا ہے اس بنا پر باقى سب كفارات بھى، اور عام اصولى قاعدہ كى بنا پر جس پر سب فقھاء متفق ہيں وہ قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:

” عاجز ہونے كى صورت ميں واجب نہيں ہے ”

ديكھيں: الشرح الممتع على زاد المستقنع ( 6 / 418 ).

اور آپ كا حال تو اللہ ہى جانتا ہے، اس ليے آپ پر واجب ہے كہ آپ اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كريں، اور آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ روزے ركھنے كى استطاعت ہوتے ہوئے يا پھر روزے ركھنے سے عاجز ہونے كى صورت ميں كھانا كھلانے كى استطاعت ركھتے ہوئے بيوى سے جماع كرنا حرام ہے، يہ گناہ كا باعث ہے، اور اگر آپ بيمارى يا پھر عمر زيادہ ہونے يا پھر بہت شديد مشقت ہونے كى بنا پر روزے ركھنے سے عاجز ہوں تو پھر آپ معذور ہيں، ليكن كيا آپ اس سے بھى عاجز ہيں كہ روزانہ ايك مسكين كو ايك وقت كا كھانا كھلا ديں، يعنى دوپہر يا پھر رات كا كھانا ؟!

لوگوں كى عام حالت سے ہميں تو يہى معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس سے عاجز نہيں، اس ليے اگر آپ روزانہ ايك مسكين كو كھانا كھلانے كى استطاعت ركھتے ہيں تو ابھى سے شروع كر ديں اور اپنى بيوى كے قريب مت جائيں حتى كہ آپ ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلا ديں، اس كے علاوہ آپ كے ليے حلال نہيں.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” قولہ: ساٹھ مسكينوں كوكھانا كھلائے ”

كيا ساتھ مسكينوں كو كھانے كا مالك بنانا ہے يا كہ كھانا كھلانا ہے ؟

ہم كہتے ہيں: قرآن مجيد ميں اطعام كے لفظ ہيں اور يہ نہيں فرمايا كہ اعطوا يعنى انہيں ديں، بلكہ يہ فرمايا كہ كھلاؤ تو اس وقت ہم يہ جانيں گے كہ اس سے ملكيت بنانا مراد نہيں اس بنا پر ہم يہ كہتے ہيں:

ساٹھ مسكينوں كو كھانا كھلانے كى دو صورتيں ہيں:

پہلى صورت:

دوپہر يا رات كا كھانا تيار كيا جائے اور مسكينوں كو كھانے كى دعوت دى جائے اور وہ كھا كر چلے جائيں.

دوسرى صورت:

ہر ايك مسكين كو كھانا ديا جائے اور وہ خود تيار كرے ليكن وہ چيز ہونى چاہيے جو عادتا اور عام طور پر كھائى جاتى ہے، يا تو ايك مد گندم، يا پھر نصف صاع كوئى اور چيز ہمارے دور ميں غلہ ماپا نہيں جاتا، ليكن اس كا وزن كيا جاتا ہے تو يہ كہا جائيگا:

اس كا اندازہ ہر ايك مسكين كے ليے ايك كلو چاول اور اس كے ساتھ سالن كے ليے گوشت وغيرہ بھى ہونا چاہيے تا كہ كھايا جا سكے.

اور كيا يہ تعداد مقصود ہے يا كہ اتنى عدد كھانا كھلانا مقصود ہے ؟

اتنى تعداد مسكينوں كو كھانا كھلانا مقصود ہے نہ كہ كھانا اتنى عدد ميں، دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ اگر كسى شخص نے ايك ہى شخص كو اتنا غلہ دے ديا جو ساٹھ مسكينوں كے كافى ہے تو يہ كفائت نہيں كريگا.

اور اگر وہ تيس تيس كر كے دو بار كھلائے تو كافى نہيں؛ كيونكہ تعداد منصوص عليہ ہے، اس ليے اس كى اتباع و پيروى كرنا ضرورى ہے، الا يہ كہ اسے صرف تين مسكين ہى مليں تو پھر ہم كہيں گے ضرورت كى بنا پر اس ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: الشرح الممتع على زاد ا لمستقنع ( 13 / 256 – 257 ).

اور اگر آپ اس كى استطاعت نہيں ركھتے تو آپ سے كفارہ ساقط ہو جائيگا؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android