میں شادی سے پہلے ایک جگہ ملازمت کرتا تھا ، اس ملازمت کے دوران میں نے کچھ حرام دولت کمائی، کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نے اس رقم کے ساتھ مزید پیسے جمع کیے اور اس سے رہائشی مکان خرید لیا، اور ایک گاڑی میں حصہ ڈال لیا، یہ میری ساری جمع پونجی ہے، شادی کے بعد میں نے اللہ تعالی سے عہد کیا کہ میں اپنے گھر میں حرام مال داخل نہیں ہونے دوں گا، میں نے غلط کام چھوڑ دیا اور توبہ کر لی، تو اب میں اپنے گھر اور گاڑی کے بارے میں کیا کروں؟ میں چاہتا ہوں کہ اپنے گھر اور دولت کو حرام سے پاک صاف کروں، مجھے بتلائیں کہ میں کیا کروں کہ اللہ تعالی مجھ سے راضی ہو جائے؟
حرام طریقے سے دولت کمائی اور مکان خرید لیا، تو کیا اس مکان کو چھوڑ دے؟
سوال: 121252
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کی توبہ قبول فرمائے، اور آپ کو حلال و پاکیزہ روزی عطا فرمائے۔
واضح رہے کہ توبہ کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: غصب شدہ حق ، مستحق تک پہنچایا جائے، چنانچہ اگر اس دولت میں سے کچھ چوری، دھوکا دہی، ملاوٹ وغیرہ کی صورت میں بٹورا گیا ہو تو اس دولت کے مالکان تک پہچانا لازمی ہے، اور اگر کوشش کے باوجود ان مالکان تک یا ان کے وارثان تک رسائی ممکن نہ ہو تو پھر آپ ان کی طرف سے نیت کر کے یہ دولت صدقہ کر دیں، اور اگر اس کا حقدار آئندہ کبھی بھی آپ کو مل جائے تو آپ اسے اختیار دیں کہ وہ دولت واپس لے لے اور صدقے کا ثواب آپ کو ملے، یا پھر صدقے کو اپنی طرف سے قبول کر لے، تو صدقے کا ثواب اسے مل جائے گا۔
دوم:
لیکن اگر یہ کمائی ہوئی حرام دولت لین دین یا حرام تجارت کی شکل میں باہمی رضا مندی کے ساتھ ہو جیسے کہ شراب کی قیمت، یا گانا گانے کا معاوضہ، یا بانسری بجانے کی تنخواہ، یا سودی معاملے کی کتابت، یا جھوٹی گواہی کا عوض وغیرہ تو اس کے حکم میں تفصیل ہے:
1-انسان نے یہ دولت ایسی کیفیت میں کمائی ہو کہ اسے اس کام کے حرام ہونے کا علم نہ ہو تو یہ دولت اسی کی ملکیت میں رہے گی، اس دولت سے خلاصی پانا اس کے لیے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سود کے متعلق فرمایا:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت آ جائے اور وہ سودی لین دین سے باز آ جائے تو اس کے لیے سابقہ کمایا ہوا مال ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد، لیکن جو شخص دوبارہ سودی لین دین کرے، تو یہی لوگ ہیں جہنم والے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ [البقرۃ: 275]
2- اور اگر اسے اس چیز کی حرمت کا پہلے ہی علم تھا، لیکن اب حرام کمائی ہوئی دولت باقی نہیں ہے خرچ ہو چکی ہے، تو اگر انسان توبہ کر لے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا۔
3- اگر مال باقی بچا ہوا ہے تو اس پر نیکی کے کاموں میں اسے خرچ کر کے اس سے خلاصی پانا لازم ہے، الا کہ اسے پیسوں کی ضرورت ہو تو ان میں سے اپنی ضرورت کے مطابق رکھ لے اور بقیہ سے خلاصی پا لے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
میں آپ سے لوگوں کے درمیان ایک شیخ محترم کی نسبت سے مشہور ہو جانے والے فتوے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص شراب بنا کر یا شراب بیچ کر، یا منشیات فروخت کر کے مال کماتا ہے، اور پھر وہ توبہ تائب ہو جاتا ہے ، تو اس کے لیے منشیات یا شراب فروخت کر کے کمایا گیا مال حلال ہے۔
کمیٹی نے جواب دیا:
"اگر حرام کمانے کے وقت اسے اس کی حرمت کا علم تھا تو پھر محض توبہ کرنے سے اس کے لیے یہ حرام کمایا ہوا مال حلال نہیں ہو گا، بلکہ اس پر اس حرام کو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کر کے خلاصی پانا لازم ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (14/33)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کسی سے حرام لین دین کرتے ہوئے قیمت وصول کر لیتا ہے، مثلاً: کوئی زانیہ، یا گانا گانے والا، یا شراب فروخت کرنے والا یا جھوٹی گواہی دینے والا معاوضہ لے اور بعد میں ایسی حالت میں توبہ کر ے کہ معاوضہ ابھی اس کے پاس ہی ہو تو اس بارے میں اہل علم کا ایک گروہ کہتا ہے کہ: یہ رقم اس کے مالک کو واپس کرے گا، کیونکہ یہ رقم مالک ہی کی ہے، اور اِس شخص نے یہ رقم مالک سے شرعی اجازت کے بغیر لی ہے، نیز اس مالک کو اس رقم کے عوض کوئی جائز فائدہ بھی نہیں ہوا۔
جبکہ اہل علم کا دوسرا گروہ کہتا ہے کہ: اس کی توبہ کا طریقہ یہ ہو گا کہ اس رقم کو صدقہ کر دے، اور جس سے وصول کی ہے اسے واپس نہ کرے۔ یہ موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے، اور دونوں اقوال میں سے صحیح ترین قول بھی یہی ہے۔۔۔ " ختم شد
"مدارج السالكين" (1/389)
ابن قیم رحمہ اللہ نے اس بارے میں تفصیلی گفتگو "زاد المعاد" (5/778) میں بات حتمی طور پر بیان کی کہ اس مال سے خلاصی پانے کا طریقہ اور توبہ کی تکمیل کا ذریعہ یہ ہے کہ: "اس مال کو صدقہ کر دے، تاہم اگر اسے رقم کی ضرورت ہو تو اپنی حاجت اور ضرورت کے مطابق خود رکھ لے اور بقیہ صدقہ کر دے۔" ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر جسم فروش عورت توبہ کر لے، شراب کی تجارت کرنے والا تائب ہو جائے اور وہ غریب بھی ہوں تو اپنی ضرورت کے مطابق اس مال سے لے سکتے ہیں، اور اگر ممکن ہو کہ وہ تجارت کرے، یا کوئی پیشہ اپنائے مثلاً: کپڑا بنے، یا سوت کاتے وغیرہ تو اسے اتنا دے دیا جائے کہ جو اس کا رأس المال بن جائے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/308)
اس بنا پر: اگر آپ کو مکان کی ضرورت ہے اور آنے جانے کے لیے گاڑی میں حصے کی بھی ضرورت ہے تو ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے گا، آپ پر اس مال سے خلاصی پانا لازمی نہیں ہے۔
چنانچہ آپ کثرت سے نیک عمل کریں، زیادہ سے زیادہ صدقہ کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
ترجمہ: اور یقیناً میں توبہ کرنے والوں اور عمل صالح کے بعد ہدایت پر کار بند رہنے والوں کو بہت زیادہ بخشنے والا ہوں۔ [طہ: 82]
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب