جب کوئی شخص چھٹیوں میں کہیں جانے کا سوچ رہا ہواوراسکے ذہن میں عمرہ اداکرنے کی سوچ پیدا ہوجائے ليكن وہ عمرہ پرجانے کی بجائے کہیں اورچلاجائے توکیا ايسا كرنے میں کوئى حرج ہوگا ؟
مجھے تویہی بتایا گياہے کہ : آدمی حج یا عمرہ پراس وقت جاتا ہے جب طلب ہو اوروہاں جانے کا وقت بھی قریب ہو ، صرف جانے کے امکان کے بارہ میں سوچنا اوراس کے بعد نہ جانے کا یہ معنی نہیں کہ وقت ( آدمی کے حج اورعمرہ کی ادائيگى کا وقت )قریب آگیا ہے ، کیاایسا ہی ہے ؟
حج اورعمرہ کرنے والے شخص کا اپنی رائے بدلنا
سوال: 12213
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فریضہ حج کی ادائيگى میں توجلدی کرنا ضروی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( حج کی ادائيگى میں جلدی کرو ، کیونکہ کسی کویہ معلوم نہیں کہ اسے کیا پیش آجائے ) ۔
اورعمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :
” جو استطاعت ہونے کے باوجود حج کیے بغير مرگیا تواس کیلئے کھلی چھٹی ہے کہ وہ یہودی یا نصرانى ہوکرمرے “
لیکن نفلی حج یا عمرہ کے بارہ میں انسان اپنی رائے تبدیل کرسکتا ہے اورجب تک وہ اسکا احرام نہیں باندھ لیتا اس پر اپنی رائے تبدیل کرنے میں کوئی گناہ نہيں ہوگا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
(وأتموا الحج والعمرة لله )
ترجمہ: اوراللہ تعالی کے لیے حج اورعمرہ مکمل کرو ۔
اوراسے اس کے لیے ایسا وقت اختیار کرنا چاہیے جواسے مناسب ہو اوراگر وہ سفر کا عزم بھی کرلے اورعزم کے بعد سفر نہ کرے تواس پرکوئی حرج نہيں .
ماخذ:
الشيخ ابراہيم الخضيرى