سوال: ہمارے علاقے کی مسجد کے امام نے کچھ بدعتی امور سر انجام دیے، اور کچھ نمازیوں نے امام صاحب کو دلائل کے ذریعے ان بدعات سے خبردار بھی کیا، لیکن امام مسجد اپنی بدعات پر بضد ہے، تو کیا آپ یہ مشورہ دیں گے کہ جس خطبے میں بدعات (مثلاً: عید میلاد النبی، یا نصف شعبان کی رات وغیرہ ۔۔۔) پر ترغیب متوقع ہو اس خطبہ جمعہ میں شرکت نہ کی جائے؟ اور اگر خطبہ میں حاضر ہونے کے بعد خطیب کچھ بدعات پر عمل شروع کردے تو پھر انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا خطبہ کے دوران کھڑا ہو جائے، اور اپنے گھر جا کر ظہر کی نماز ادا کرے؟ اور کیا ایسے خطبات میں شرکت کی وجہ سے انسان کو گناہ بھی ہوگا؟ کیونکہ کچھ بھائیوں نے امام کو نصیحت بھی کی ہے لیکن امام اپنی ضد پر قائم ہے، اور کیا خطیب کی طرف سے اپنے خطبہ میں ضعیف اور موضوع روایات ذکر کرنے کی وجہ سےبھی یہی حکم ہوگا؟
کسی گمراہی یا بدعت کی دعوت دینے والے خطیب سے کس طرح پیش آئے؟
سوال: 122339
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر کسی کے محلے کی مسجد کا امام بدعتی ہو تو اس کی بدعت دو طرح کی ہو سکتی ہے: کفریہ یا فاسقہ، اگر اسکی بدعت کفریہ ہے تو اسکے پیچھے نماز یا جمعہ کچھ بھی ادا کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر اسکی بدعت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی، تو راجح یہی ہے کہ اس کے پیچھے نماز اور جمعہ پڑھنا درست ہے، عام طور پر اسی حکم پر عمل کیا جاتا ہے، حتی کہ اہل سنت کا شعار بن چکا ہے، اور صحیح بات بھی یہی ہے، چنانچہ ایسے بدعتی کے پیچھے نماز ادا کرنے پر وہ دوبارہ نماز نہیں پڑھے گا، اس بارے میں اصول یہ ہے کہ: جس شخص کی اپنی نماز درست ہے، اسکی امامت بھی درست ہے۔
اور اگر بدعتی امام کے علاوہ کسی اورمتبع ِسنت امام کے پیچھے نماز وغیرہ ادا کرنا ممکن ہو تو متبع امام کے پیچھے نماز ادا کرنا ضروری ہے، اور اگر مقتدی علماء میں سے ہے تو اسے صحیح العقیدہ امام کے پیچھے ہی نماز ادا کرنا چاہیے، اسکا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے تحت ہے، لیکن باجماعت نماز ترک کر کے گھر میں اکیلے نماز ادا کرنا اس کیلئے جائز نہیں ہے، تو جمعہ کے بارے میں حکم بالاولی عدم ِجواز کا ہوگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مقتدی کو علم ہو جائے کہ اسکا امام بدعتی ہے، اور اپنی بدعت کی دعوت بھی دیتا ہے، یا اعلانیہ فسق و فجور کے کام کرتا ہے، اور وہی مسجد کا مستقل امام ہے،اور مسجد میں باجماعت نماز اسی کے پیچھے اد اکی جاتی ہے، یعنی وہ جمعہ، عیدین کا امام ہے، یا عرفہ میں بھی وہی امام ہے، تو مقتدی اس کے پیچھے نماز ادا کرے گا، یہ موقف تمام سلف صالحین، اور دیگر علمائے کرام کا ہے، یہی مذہب امام احمد رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے۔
اسی لئے علماءنے عقائد کی کتب میں کہا ہے کہ:
"جمعہ اور عید نیک اور فاجرہر طرح کے امام کے پیچھے اد کی جائےگی"
اور اگر علاقے میں ایک ہی امام ہے، تو مقتدی کو چاہیے کہ جماعت کے ساتھ اسی امام کے پیچھے نماز ادا کرے کیونکہ چاہے امام فاسق ہی کیوں نہ ہو پھر بھی نماز با جماعت اکیلے آدمی کی نماز سے بہتر ہے۔
یہی مذہب احمد بن حنبل، شافعی وغیرہ جمہور علمائے کرام کا ہے، بلکہ امام احمد کے موقف کے مطابق ہر شخص پر [بدعتی امام کے علاوہ کوئی امام نہ ہونے کی صورت میں ]جماعت میں شامل ہونا واجب ہے، اور جس شخص نے فاسق و فاجر امام کے پیچھے جمعہ ، اور نمازیں ادا نہ کیں تو وہ امام احمد وغیرہ کے ہاں بدعتی ہے، جیسے کہ رسالہ "عبدوس" میں ابن مالک اور عطار نے ذکر کیا ہے۔
چنانچہ صحیح بات یہی ہے کہ : بدعت [غیر مکفّرہ] میں ملوّث امام کے پیچھے نماز پڑھے گا، اور دوبارہ نہیں لوٹائے گا؛ کیونکہ صحابہ کرام فاسق و فاجر حکمرانوں کے پیچھے جمعہ اور نمازیں پڑھا کرتے تھے، اور انہیں دوبارہ بھی نہیں پڑھتے تھے، جیسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حجاج بن یوسف کے پیچھے ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھی حالانکہ وہ شرابی تھا، بلکہ ایک بار ولید نے لوگوں کوصبح کی چار رکعتیں پڑھا دیں ، اور پھر کہنے لگا: "اور زیادہ پڑھاؤں؟" تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم تو تمہارے ساتھ زیادہ ہی پڑھتے آئے ہیں" پھر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے اسکی شکایت کی۔
اور صحیح بخاری میں ہے کہ : عثمان رضی اللہ عنہ جب گھر میں محصور کر دیے گئے تو ایک شخص نے لوگوں کونماز پڑھائی، جس پر کسی پوچھنے والے نے عثمان رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور کہاکہ [عثمان] آپ اصل امام ہیں، اور جس نے لوگوں کو نماز پڑھائی ہے یہ فتنہ پرور امام ہے، تو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "بھتیجے! نماز سب سے بہترین عمل ہے، اگر وہ درست کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاو اور اگر غلطی کریں تو تم انکی غلطی سے بچو" سلف سے اس قسم کے بہت سے واقعات ملتےہیں۔
فاسق اور بدعتی کی نماز ذاتی طور پر درست ہے، چنانچہ اگر مقتدی نے فاسق یا بدعتی کے پیچھے نماز پڑی تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی، لیکن ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے۔
وہ شخص جو اعلانیہ بدعات کا ارتکا ب کرتا ہے اسے مسلمانوں کا مستقل امام مقرر نہیں کیا جانا چاہیے ، ( اگر بالفرض امام بن جائے)تو اسے توبہ کرنے تک تعزیری سزا دی جائے ، اسی طرح اگر اس کے توبہ کرنے تک قطع تعلقی ممکن ہو تو یہ اچھا ہے، اور اگر کچھ لوگوں کا اسکے پیچھے نماز پڑھنا ترک کرنے سےیہ بات اس کے دل پر گراں گزرے، اور توبہ کی طرف مائل کرے، یا ایسے امام کو معزول کر دینے ، یا لوگوں کا اس قسم کے گناہوں کی وجہ سے خود ہی اسکے پیچھے نماز نہ پڑھنے تو ان تمام صورتوں میں مصلحت کے تحت ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بہتر ہے،بشرطیکہ مقتدی جمعہ اور فرض نماز کسی اور امام کے پیچھے ادا کرتے رہیں ۔
لیکن اگر اس کے پیچھے نماز ترک کرنے سے کہیں اور جمعہ نہیں مل سکتا، یا جماعت نہیں مل سکتی تو یہ طرز عمل بدعت شمار ہو گا ، اور صحابہ کرام کے طریقے کے خلاف ہے"
" الفتاوى الكبرى " ( 2 / 307 ، 308 )
دوم:
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ معلوم ہو گیا کہ جو شخص خطیب کی طرف سے بدعات کی ترغیب سنتا ہے ، جیسے کہ آپ نے اپنے سوال میں ان بدعات کی طرف اشارہ کیا ہے، یا امام ضعیف و موضوع روایات بیان کرتا ہے تو ایسے شخص کو مسجد نہیں چھوڑنی چاہیے، یا خطبہ جمعہ سے اٹھ نہیں جانا چاہیے، اِلّا کہ کوئی معروف بڑا عالمِ دین ہو، اور خطبہ کے دوران اس امید سے اٹھے کہ کسی اور کے پیچھے نماز جمعہ ادا کریگا، یا خطبہ چھوڑ کر جانے والے شخص کی طرف سے پہلے بھی خطیب کو نصیحت کی جا چکی ہو، اور اسے حق بات بیان کر دی گئی ہو تو وہ چھوڑ سکتا ہے۔
لیکن اگر اس نے پہلے خطیب کو نصیحت نہیں کی، یا وہ کسی دوسری مسجد میں جمعہ ادا نہیں کر سکے گا، تو ظاہر ہے کہ خطبہ کے دوران مسجد سے باہر جانا اس کیلئے درست نہیں ہے، صرف ایسے امام کے خطبہ کے دوران اٹھ کر جا سکتا ہے جس کے پیچھے نماز ہو ہی نہیں سکتی، مثلاً: امام کفریہ نظریات کا حامل ہو۔
ہم اپنی ویب سائٹ پر سوال نمبر: (6366) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں کہ : خطبہ جمعہ کے دوران اگر کوئی خطیب گمراہی والی بات کرے، یا بدعت ثابت کرنے کی کوشش کرے، یا شرکیہ افعال کرنے کی ترغیب دلائے، تو خطیب کو دورانِ خطبہ روکا جا سکتا ہے، لیکن یاد رہے کہ اسکی کچھ شرائط ہیں مثلا : درمیان میں روکنے کی وجہ سے لوگوں میں فتنہ کھڑا نہ ہو، جمعہ ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو، اگر اندیشہ ہو تو خطبہ ختم ہونے کے بعد خطیب کو سمجھائے اور لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جو شخص خطیب کی بات کا رد کرنا چاہے تو نرم زبان و لہجہ استعمال کرے، تا کہ رد کرنے کا اصل مقصد حاصل ہو سکے۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
اس خطیب کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے جو دورانِ خطبہ باتیں کرے، یا سارا خطبہ اسرائیلی روایات اور ضعیف احادیث بیان کرے تاکہ لوگ خوش ہوں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
" جب آپ کو یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ وہ خطبہ میں بے بنیاد اسرائیلیات ذکر کرتا ہے ، یا ضعیف احادیث بیان کرتا ہے تو اسے نصیحت کرو کہ وہ ان کے بدلے صحیح احادیث اور قرآنی آیات بیان کرے، اور کسی چیز کی نبی صلى الله علیہ وسلم کی طرف حتمی نسبت اسی وقت کرے جب اسے اس کے صحیح ثابت ہونے کا یقین ہو جائے، نبی صلى الله علیہ وسلم كا فرمان ہے كہ: (دین نصیحت ہے)يہ حديث مسلم نے اپنی صحيح میں روایت کی ہے ، چنانچہ نصیحت کرتے ہوئے اچھا انداز اپنایا جائے، سختی نہ کی جائے، اللہ تعالی آپکو توفیق دے، اور آپکو دوسروں کیلئے مفید بنائے۔
شیخ عبد العزيز بن باز ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد الله بن غديان
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 8 / 229 ، 230 )
خلاصہ یہ ہوا کہ :
اگر آپ کسی ایسی مسجد میں جا سکتے ہیں جہاں بدعات پر عمل نہیں ہوتا ، اور نہ ہی خطیب غلط بات کی دعوت دیتا ہے، تو اچھا ہے آپ وہیں پر جائیں، اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے یا آپ کے قریب کوئی اور مسجد ہی نہیں ہے، تو پھر آپ کے لئے جمعہ اور باجماعت نماز آپکے ذکر کردہ مسائل کی وجہ سے چھوڑنا جائز نہیں ہے، آپ خطیب کو دعوت دینے کیلئے پوری کوشش کریں، اور بھرپور انداز میں نرمی سے پیش،اور لوگوں کو دعوت دینے کیلئے اچھا اسلوب اختیار کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات