ایک اخبار میں مضمون شائع ہوا، جس کا عنوان تھا: “نوجوان صحافی کی جانب سے اہل علم کی ہزار سالہ غلطی کی تصحیح”، اس مضمون میں درج ذیل نکات پر گفتگو کی گئی:
1- یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے 6 سال کی عمر میں شادی کی اور 9 سال کی عمر میں رخصتی ہوئی اس کی بنیاد صحیح بخاری کی روایت ہے، جو کہ غلط ہے، اس میں رخصتی کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کا تعین کرتے ہوئے غلطی لگی ہے۔
2- مضمون نگار کے مطابق تاریخی کتب کے شواہد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے وقت 18 سال عمر تھی 9 سال نہیں تھی۔
3- اس صحافی کے علاوہ تمام علمائے کرام کو اس غلطی کا احساس ہی نہ ہوا۔
میں آں جناب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بارے میں تمام مسلمانوں کی رہنمائی شرعی دلائل سے فرمائیں۔
اس جھوٹی بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے18 سال کی عمر میں ہوئی، کا رد
سوال: 122534
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
صحیح احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا، اور آپ کی رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی، ان میں سے کچھ احادیث درج ذیل ہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میری عمر اس وقت چھ سال تھی، پھر جس وقت ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج کے ہاں ٹھہرے، تو مجھے وہاں بخار ہو گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال جھڑ گئے پھر جب کندھے تک لمبے ہوئے تو میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں میں اس وقت اپنی سہیلیوں کیساتھ جھولے لے رہی تھی، میری والدہ نے مجھے زور دار آواز دے کر بلایا میں ان کے پاس آئی مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کس لیے بلایا تھا، میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے پر پہنچ گئیں، میرا سانس اس وقت پھولا ہوا تھا، جب میرا سانس آپس میں ملا تو پانی سے میرا سر اور چہرہ دھویا، پھر مجھے ایک گھر میں لے گئیں، تو وہاں انصار کی کچھ خواتین پہلے سے ہی موجود تھی، انہوں نے میرے بارے میں کلمات خیر کہے، اور میری والدہ نے مجھے ان کے سپرد کر دیا، ان خواتین نے میرا بناؤ سنگھار کر دیا، مجھے کسی بات کا علم ہی نہیں تھا کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میری والدہ نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا، اور میری عمر اس وقت نو سال تھی”
بخاری: (3894) مسلم: (1422)
اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ : “جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں تھی اس وقت اپنی سہیلیوں کیساتھ گڑیوں سے کھیلتی تھی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تھے میری سہیلیاں چھپ جاتیں، تو آپ انہیں واپس بلاتے پھر وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتیں”
بخاری: (7130) مسلم:(2440)
اسی طرح ابو داود: (4932) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت موجود ہے کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو ان کی الماری کا پردہ ہوا سے ہٹ گیا، جس کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں نظر آنے لگیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عائشہ یہ کیا ہیں؟) تو انہوں نے کہا: “یہ میری گڑیاں ہیں” انہی گڑیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو پروں والا کپڑے کا گھوڑا بھی نظر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (یہ گڑیوں کے درمیان کیا چیز ہے؟) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: “یہ گھوڑا ہے” آپ نے پوچھا: (اس پر کیا بنا ہوا ہے؟) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: “یہ اس کے پر ہیں” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: “کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ سلیمان [علیہ السلام] کے گھوڑے کے پر تھے” عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا کھل کھلا کر ہنسے کہ مجھے آپ کی ڈاڑھیں بھی نظر آئیں”
اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے “آداب الزفاف” صفحہ: (203) میں صحیح کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“خطابی رحمہ اللہ کے مطابق: عائشہ رضی اللہ عنہا کو گڑیوں کے رکھنے کی اجازت اس لئے دی گئی کہ آپ اس وقت بالغ نہیں تھیں۔
لیکن مجھے [ابن حجر کو ] اس کے بارے میں ٹھوس الفاظ سے تعبیر میں تامل ہے، البتہ اس کا احتمال موجود ہے؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غزوہ خیبر کے موقع پرکم و بیش 14 سال عمر تھی، لیکن غزوہ تبوک کے موقع پر یقینی بات ہے کہ آپ اس وقت تک بالغ ہو چکی تھیں، اس لیے حدیث میں خیبر کے الفاظ ہی راجح ہونگے” انتہی، واضح رہے کہ غزوہ خیبر سات ہجری میں ہوا تھا۔
اسی طرح مسلم: (1422) میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ان کا نکاح 7 سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی اس وقت ان کیساتھ ان کی گڑیوں کو بھی بھیجا گیا تھا، اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ان کی عمر اٹھارہ سال تھی)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“یہاں عربی متن کے لفظ “بنات” سے مراد گڑیاں ہیں، جن سے چھوٹی بچیاں کھیلتی ہیں، اور ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی کمر عمری واضح ہو” انتہی
اس حدیث میں ہے کہ : نکاح کے وقت ان کی عمر 7 سال تھی، اور اکثر روایات میں 6 سال کا ذکر ہے، تو ان دونوں روایات میں تطبیق ایسے ہوگی کہ ان کی عمر 6 سال سے کچھ زیادہ تھی، تو بسا اوقات انہوں نے صرف 6 سال کا ذکر کیا اور بسا اوقات انہوں نے جس سال میں لگ چکی تھیں اس کا ذکر کیا۔
یہ بات امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں بیان کی ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے اہل علم کا اس بات پر اتفاق بھی نقل کیا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف اب تک ذکر نہیں کیا گیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
“عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ان کا نکاح 6 سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی” اس بارے میں لوگوں کاکوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ویسے بھی یہ بات صحیح بخاری و مسلم سمیت دیگر کتب میں بھی ثابت ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ان کی رخصتی ہجرت کے دوسرے سال ہوئی تھی” انتہی
“البداية والنهاية” (3 / 161)
یہ بات سب کے ہاں مسلّمہ ہے کہ اجماع کبھی بھی غلط موقف پر قائم نہیں ہوتا؛ کیونکہ امت کسی بھی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی، چنانچہ ترمذی (2167) میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر متحد نہیں فرمائے گا) اس حدیث کو البانی نے صحیح الجامع: (1848) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
مذکورہ مضمون نگار کے تعصب نے اسے دروغ گوئی اور حقائق مسخ کرنے پر مجبور کیاہے، مقصد صرف یہ ہے کہ اپنا الو سیدھا کر سکے، جیسے کہ مثال کے طور پر مضمون نگار نے ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالے سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں کے متعلق لکھا کہ:
“خواتین میں سے اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ بچپن میں ہی مسلمان ہو گئیں اس طرح یہ سب ابتدائی تین سالوں میں مسلمان ہوئے”
یہ بات ہمیں ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب “البداية والنهاية” میں نہیں ملی، ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات اسی کتاب (3/25) میں کچھ اس طرح ہے:
“سب سے پہلے آزاد لوگوں میں نبوت محمدی کی تصدیق کیلئے حضرت ابو بکر صدیق نے قدم بڑھایا، بچوں میں سے حضرت علی بن ابی طالب نے، اور خواتین میں سے حضرت خدیجہ بنت خویلد نے اسلام قبول کیا” انتہی، لیکن اسماء اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا انہوں نے بالکل بھی تذکرہ نہیں کیا۔
کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اعلان نبوت سے بھی تقریباً چار سال بعد پیدا ہوئیں۔
مضمون نگار کا یہ کہنا کہ: “اسی طرح تمام کے تمام تاریخی مصادر نے بغیر کسی اختلاف کے یہ ذکر کیا ہے کہ اسماء عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں”
تو یہ بات بھی مبنی بر حقیقت نہیں ہے، کیونکہ ذہبی رحمہ اللہ نے “سير أعلام النبلاء” (3/522) میں ذکر کیا ہے کہ اسما ءرضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال اور [بضع] یعنی کچھ بڑی تھیں” انتہی
عربی کا لفظ: “بضع” تین سے دس کے درمیان بولا جاتا ہے۔
سوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کیساتھ 9 سال کی عمر میں شادی کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ نسل، آب و ہوا کے اثرات کی وجہ سے لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر ہر خطے کی الگ ہوتی ہے، چنانچہ گرم علاقوں میں لڑکی جلدی بالغ ہو جاتی ہے، اور شمالی یا جنوبی قطبی علاقوں میں لڑکیاں بسا اوقات 21 سال کی عمر تک بالغ ہوتی ہیں۔
نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: “جب لڑکی 9 سال کی ہو جائے تو وہ عورت ہی ہے”
“سنن ترمذی” (2/409)
اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں نے یمن میں دیکھا کہ اکثر طور پر 9 سالہ لڑکیوں کو حیض آنے لگتا ہے”
“سير أعلام النبلاء” (10 / 91)
اسی طرح بیہقی (1588) نے شافعی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ:
“جن خواتین کے بارے میں جلدی سے جلدی حیض آنے کے بارے میں سنا ہے وہ تہامہ کی خواتین ہیں انہیں 9 سال کی عمر میں حیض آتا ہے”
اسی طرح شافعی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
“میں نے صنعا میں 21 سالہ وعورت کو نانی بنے دیکھا ہے، کہ ایک عورت کو 9 سال کی عمر میں حیض آیا اور 10 سال کی عمر میں اس نے ایک بچی کو جنم دیا، پھر یہ بچی بھی 9 سال کی عمر میں جوان ہوئی اور اس نے بھی 10 سالہ عمر میں ایک بچی کو جنم دیا”
“السنن الكبرى” از بیہقی (1 / 319)
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کیساتھ رخصتی بلوغت کے بعد یا بلوغت سے کچھ پہلے ہوئی ۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (44990) کا مطالعہ کریں۔
کسی بھی فن سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس امر کا لحاظ رکھنا لازمی اور واجب ہے کہ علم اور انصاف کی بنیاد پر گفتگو ہو، جہالت، تعصب اور ذاتی رائے کو تقویت دینا مقصود نہیں ہونا چاہیے۔
کسی بھی شخص کے برے ہونے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی ایسا موقف اپنائے جو گزشتہ سینکڑوں سال میں کسی نے نہ اپنایا ہو، بلکہ یہ تو اس بات کے غلط ہونے کی دلیل بنتی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو بات گزشتہ اہل علم کی بجائے صرف بعد والے کریں تو یہ امر اس کے غلط ہونے کی دلیل ہے، جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا تھا: کوئی بھی ایسی بات مت کرنا جو تم سے پہلے کسی نے نہ کہی ہو” انتہی
“مجموع الفتاوى” (21/291)
اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ : اللہ تعالی ہمیں حق کو حق سمجھنے اور پھر اتباعِ حق کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز باطل کو باطل سمجھنے اور پھر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات