میری شادی شدہ بہنیں ہیں اور والدہ کی میرے والد صاحب کی وفات کے بعد کسی اور شخص سے شادی ہو گئی تھی، میں فوج میں ملازمت کرتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ اپنی بہنوں اور والدہ سے جا کر ملوں، لیکن میرے حالات اجازت نہیں دیتے، واضح رہے کہ میں بھی شادی شدہ ہوں ، اگر میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر ان کے پاس جاتا ہوں تو کم از کم تین دن مجھے وہاں رکنا پڑے گا، اس دوران میں اپنی بیوی اور بچوں کے بارے میں فکر مند رہوں گا، کیا میں رشتہ داری کو توڑ رہا ہوں، اس لئے کہ دس مہینے سے میں ان کے پاس صلہ رحمی کیلیے نہیں گیا؟
صلہ رحمی حسب استطاعت واجب ہے۔
سوال: 12292
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
"صلہ رحمی حسب استطاعت واجب ہے، اس کے لیے قریب ترین رشتہ داروں کو زیادہ ترجیح حاصل ہے، صلہ رحمی خیر کثیر اور ڈھیروں فوائد کا حامل عمل ہے، جبکہ قطع رحمی حرام بھی ہے اور کبیرہ گناہ بھی؛ کیونکہ اللہ تعالی نے قطع رحمی کے متعلق فرمایا ہے:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ
ترجمہ: پھر تم لوگوں سے کیا بعید ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ تو زمین پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو [22] یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔ [محمد: 22، 23]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جنت میں قطع رحمی کرنے والا داخل نہیں ہو گا) اس حدیث کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے۔
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ: اللہ کے رسول! میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا: (اپنی ماں کے ساتھ) اس نے پھر پوچھا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (اپنی ماں کے ساتھ) ، اس نے پھر پوچھا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر بھی یہی فرمایا کہ : (اپنی ماں کے ساتھ) ، اس نے چوتھی بار پھر پوچھا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (اپنے باپ کے ساتھ اور پھر ان کے بعد قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ) اس حدیث کو بھی امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص کو اچھا لگتا ہے کہ اسے لمبی عمر دی جائے اور اس کا رزق فراخ کر دیا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔) اس مسئلے کے متعلق بہت سی احادیث ہیں۔
آپ کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ آپ حسب استطاعت صلہ رحمی کریں، جب موقع ملے تو ان سے ملنے کے لیے جائیں، انہیں خط لکھیں، یا ٹیلی فون پر رابطہ کریں، اسی طرح اگر رشتہ دار غریب ہیں تو آپ کے لیے مالی طور پر تعاون کرتے ہوئے بھی صلہ رحمی کرنا شرعاً جائز ہے، اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے کہ :
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
ترجمہ: حسب استطاعت تقوی الہی اختیار کرو۔ [التغابن: 16]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
ترجمہ: اللہ تعالی کسی شخص کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔[البقرة: 286]
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا: (جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس پر حسب استطاعت عمل کرو) اس حدیث کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
اللہ تعالی سب کو وہ کام کرنے کی توفیق دے جو رضائے الہی کے موجب ہیں۔"
واللہ اعلم
ماخذ:
فتاوی ابن باز 9/414