جب کسی کی چار بیویاں ہوں اورایک کوطلاق دے تو کیا اس کی عدت میں کسی اورسے شادی کرسکتا ہے ؟
جب اوپر والے سوال کا جواب یہ ہو کہ چوتھی کی عدت میں پانچویں سے شادی کرنا جائز نہيں تواس کی دلیل کیا ہے ؟
اورکیا اس کی آخری شادی صحیح ہوگي ، اوراس کی تصحیح کے لیے قرآن وسنت کے مطابق کیا کرنا ہوگا ؟
چوتھی کی طلاق کی عدت میں پانچویں سے نکاح کا حکم
سوال: 12298
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگرتو آپ نے اپنی چوتھی بیوی کوطلاق رجعی دی ہے یعنی یہ اس کی پہلی یا دوسری طلاق ہے توعلماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ عدت کے ختم ہونے تک رجعی طلاق والی عورت بیوی ہی شمار ہوگي ۔
دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 7/ 104 ) ۔
توجب یہ ثابت ہوگيا کہ ابھی تک وہ آپ کی بیوی ہے توآپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ کسی بھی آزاد شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ چارسے زيادہ بیویاں رکھ سکے – یعنی ایک ہی وقت میں وہ سب اس کے نکاح میں ہوں – اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں بھی ملتی ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ غیلان بن سلمہ الثقفی رضي اللہ تعالی عنہ جب مسلمان ہوئے تو جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں جوان کے ساتھ مسلمان ہوگئيں ، تونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے حکم دیا کہ :
( ان میں سے چار کواختیار کرلے ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1128 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 329 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
مندرجہ بالا سطور سے یہ واضح ہوا کہ مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ طلاق رجعی کی حالت میں پانچویں سے شادی کرے ، اس لیے کہ اس طرح اس نے پانچ عورتوں کو جمع کردیا ۔
صحابہ کرام اورآئمہ اربعہ اورسارے اہل سنت علماء کرام کا قولی اورعملی اجماع ہے کہ کسی بھی مرد کے لیے اپنے نکاح میں چاربیویوں سے زيادہ رکھنا جائز نہیں ، صرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنی ہیں ۔
شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے جلیل القدر تابعی عبیدہ السلمانی رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ انہوں کے کہا :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کسی بھی چيز پر اس طرح متفق نہيں ہوئے جس طرح کہ ان کا چوتھی کی عدت میں پانچویں سے نکاح نہیں کیا جاسکتا ، اوربہن کی عدت میں دوسری بہن سے نکاح نہیں کیا جاسکتا میں اتفاق پایا جاتا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 154 ) ۔
توجو بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے چار بیویوں سے زيادہ جمع کرتا ہے اس نے کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اوراہل سنت والجماعت سے علیحدگي اختیار کرلی ۔ فتوی اللجنۃ الدائمۃ
دیکھیں کتاب : الفتاوی للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 641 )
اوراگرایسا ہوجائے توعقد نکاح باطل ہوگا ، اورآپ پر واجب ہے کہ آپ اس سے علیحدگی اختیار کرلیں حتی کہ طلاق شدہ بیوی کی عدت ختم ہوجائے ، اوراگر آپ نے اس یعنی پانچویں سے دخول بھی کرلیا ہے توپھر آپ اسے مہر مثل دیں ، اوروہ بھی آپ سے مطلقہ کی عدت گزارے گی ۔
پھر اگر آپ اس سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ اسے مکمل شروط کے ساتھ دوبارہ عقد نکاح کریں گے ۔
اوراگر آپ نے چوتھی کو طلاق بائنہ دی ہے – یعنی اس کی یہ طلاق تیسری طلاق تھی – تو اس مسئلہ میں چوتھی بیوی کی تیسری طلاق کی عدت میں پانچویں بیوی سے نکاح کے جواز میں علماء کرام کا اختلاف ہے ۔
حنابلہ اوراحناف کے ہاں یہ جائز نہيں ، اورفضیلۃ الشيخ علامہ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسی کوراجح کہا ہے ۔ دیکھیں کتاب : فتاوی الطلاق للشيح ابن باز ( 1 / 278 ) ۔
تو اس بنا پر اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو کہ طلاق رجعی میں گزر چکا ہے کہ اگر تیسری طلاق کی عدت ختم ہوجائے تو پھر آپ کے لیے پانچویں سے نکاح کرنا جائز ہوگا ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
اورچوتھی بیوی کی فوتگی کی حالت میں یہ جائز ہے کہ اس کی فوتگي کے بعد پانچویں سے شادی کرلے ، کیونکہ اس حالت میں زوجیت قائم نہیں رہتی ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد