ميرے خاوند نے ميرے ملك سے باہر سفر پر جانے سے تين طلاق كو معلق كر ديا ہے كہ اگر سفر پر گئى تو تجھے طلاق اور اس كى نيت طلاق كى ہے، وہ خود ہر سال اپنے دوست و احباب كے ساتھ سياحتى سفر پر جاتا اور كہتا ہے كہ وہاں بہت فتنہ و فساد ہے، اور ميں ايك غيرت مند آدمى ہوں، اور ميں مرد ہوں اس ليے وہاں جانے ميں كوئى مانع نہيں، حالانكہ وہ طبعى جگہوں پر جاتا ہے ليكن مجھے اور بچوں كو سير و تفريح پر لے جانے سے انكار كرتا ہے، حتى كہ يہاں سعوديہ ميں بھى نہيں لے كر جاتا.
بلكہ جواب يہ ديتا ہے ميں تمہيں اختلاط والى جگہوں پر نہيں لے جانا چاہتا، ميں تو اس سے بحث كركے تھك گئى ہوں وہ كہتا ہے ميں ہر برس ايك ماہ كے ليے سير و تفريح پر جاتا ہوں كيا يہ جائز ہے كہ مجھ پر اللہ كى جانب سے حلال كردہ سياحت كو حرام كر ديا جائے، وہ جب چاہتا ہے چلا جاتا ہے.
حالانكہ وہ نماز كا بھى پابند ہے، اور ہمارے پاس ڈش بھى نہيں اور نہ ہى وہ گانے سنتا ہے، كيا اسے حق حاصل ہے كہ وہ مجھے ميرى مرضى كے بغير ميرے ميكے چھوڑ كر چلا جائے ؟
مجھے بتائيں كہ ميں اس كے ساتھ كيا كروں ؟
اللہ تعالى سے دعا كريں كہ وہ مجھ اور اس سے غفلت كو دور كرے.
سياحتى سفر پر اپنى بيوى كو ساتھ نہيں لے كر جاتا اور اس كے سفر پر طلاق كو معلق كر ديا! احكام اور نصيحتيں
سوال: 123358
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم سوال نمبر ( 111934 ) اور ( 133342 ) كے جوابات ميں كفريہ اور فسق و فجور والے ممالك ميں سير و سياحت پر جانے كا حكم بيان كر چكے ہيں كہ يہ حرام ہے، اس ليے برائے مہربانى آپ ان جوابات كا مطالعہ كريں.
اور مرد و عورت كے مابين اس حكم ميں كوئى فرق نہيں اور پھر آپ كے خاوند كا آپ كے بغير جانے كا يہ معنى نہيں كہ وہ آپ كو فتنے سے بچائيگا، بلكہ كسى شخص كا بغير بيوى كے جانا ہى اسے فتنہ ميں ڈالنے كا باعث ہے، كيونكہ اگر اس نے ان ممالك ميں فتنہ و فساد اور عريانى ديكھى اور شہوت بھڑك اٹھى تو اس كى بيوى تو اس كى شہوت كى آگ ٹھنڈى كريگى.
اس ليے آپ كا خاوند جو اعتقاد ركھتا ہے كہ ـ آپ كو ان ممالك ميں نہ لے جانا افضل ہے ـ اس كى يہ سوچ غلط ہے، بہر حال حكم عام ہے، اور حكم مرد و عورت سب كوشامل ہے، اس ليے آپ كے خاوند كے ليے اس طرح كے ملكوں ميں جانا جائز نہيں، اور آپ كے ليے اپنے اور اولاد كے ليے بھى اس سے يہ مطالبہ كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ يہ حرام ہے، اور پھر فتنہ و فساد اور برائى ديكھنے كا باعث بنتا ہے.
ہم آپ كے خاوند كو يہ نصيحت كرتے ہيںكہ وہ آپ كے ساتھ جانے كى رغبت اور سير و سياحت كو اگر جمع كرنا چاہتا ہے تو وہ سعودى عرب ميں ہى كوئى سياحتى جگہ كا انتخاب كر كے وہاں چلا جائے جو دينى التزام كرنےوالے خاندانوں كے شايان شان ہے اور جہاں وہ برائياں نہيں جو دوسرے ممالك ميں پائى جاتى ہيں اور اس كے ليے بيوى كو تصويرى بھى نہيں بنانا پڑتى يا اس ميں بيوى كو اجنبى بھى نہيں ديكھتے كيونكہ جب دوسرے ملك جانا ہو تو اجنبى مرد عورت كو ديكھتے ہيں.
شيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اسى طرح ميں طالب علموں كے ذمہ داران كو يہ نصيحت كرتا ہوں كہ وہ اپنے بيٹوں كى خاص حفاظت كريں، اور باہر كے ملك جانے كا مطالبہ تسليم نہ كريں؛ كيونكہ اس ميں ان كے دين اور اخلاق اور ان كے ملك بہت سارا نقصان اور ضرر ہوتا ہے ـ جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں ـ الحمد للہ ہمارے ملك ميں ہر قسم كى تعليم پائى جاتى ہے جو باہر جانے سے مستغنى كر ديتى ہے.
اور الحمد للہ ہمارے ملك ميں سير و تفريح كى بہت سارى جگہيں ہيں اور دوسروں سے مستغنى كر ديتى ہيں، جس سے مطلب بھى پورا ہو جاتا ہے اور پھر ہمارے نوجوان خطرے سے بھى محفوظ رہتے ہيں، اور انہيں كسى خطرناك انجام اور تھكاوٹ سے بھى دوچار نہيں ہونا پڑتا، اور ان مشكلات سے بھى محفوظ رہتے ہيں جو دوسرے ملك جانے ميں پيدا ہوتى ہيں.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 4 / 194 ).
اور يہاں ايك اور معاملہ بھى ہے وہ يہ كہ: يہ چھٹياں زمينى راستے سے گاؤں اور مختلف بستيوں سے ہوتے ہوئے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات ميں صرف كى جائيں تو اس سے سير و تفريح بھى ہوگى اور صلہ رحمى كا اجروثواب بھى حاصل ہوگا اور دوست و احباب سے ملاقات بھى.
اور ہم اس سب سے بھى بہت بڑى نصيحت آپ كو يہ كرنا چاہتے تھے كہ آپ اپنے بيوى بچوں كے ساتھ عمرہ پر چلے جائيں، ليكن ہم نے آپ كا تعارف پڑھا ہے جس ميں آپ نے كہا ہے كہ ہم مكہ مكرمہ كے رہائشى ہيں جس كى بنا پر ہم نے اس نصيحت كو چھوڑ ديا، اميد ہے يہ آپ كے علاوہ دوسروں كے ليے نصيحت ہوگى جو مباح سير و سياحت كرنا چاہتے ہيں اور اجروثواب بھى حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور اپنے رب كى ناراضگى سے دور رہنے كى كوشش ميں ہوں.
ہم خاوند اور بيوى سے اميد كرتے ہيں كہ وہ سوال نمبر ( 87846 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں گے، كيونكہ اس ميں سير و سياحت كے وسيع مفہوم كى تفصيل اور اس كى اقسام اور احكام بيان كيے گئے ہيں.
اور ہم اپنى سوال كرنے والى بہن كو متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ اگر خاوند ہمارى نصيحت قبول نہيں كرتا اور وہ باہر جانے پرمصر رہتا ہے تو يہ چيز آپ كے ليے اس كے ساتھ جانے كے مطالبہ كو مباح نہيں كريگى؛ كيونكہ خاوند كى معصيت و نافرمان بيوى كے ليے عذر نہيں بن سكتى كہ وہ بھى اسى معصيت كا ارتكاب كرنا شروع كر دے، يہ مسئلہ كوئى قرض يا قصاص والا نہيں كہ اس كا مطالبہ كيا جائے، بلكہ يہ تو اللہ جل جلالہ كى حرمت اور اس كے دين و شريعت كا مسئلہ ہے، اگر خاوند آپ كے ساتھ اچھائى اور بھلائى كرتا ہے تو آپ بھى اس كے ساتھ اچھائى و بھلائى كريں، اور اگر وہ برائى كرتا ہے تو پھر آپ اس برائى سے اجتناب كريں، اور يہ مت بھوليں كہ آپ كے خاوند نے آپ كے ملك سے باہر جانے پر طلاق معلق كر ركھى ہے، اميد ہے كہ يہ چيز آپ كے ليے اسے اپنے ساتھ سفر پر لے جانے پر اصرار كرنے سے باز ركھنے كا باعث بنے، اور صرف سعوديہ ميں ہى سير و سياحت پر كفائت ہو؛ كہ كہيں طلاق ہى واقع نہ ہو جائے.
اور يہ ايك اور خرابى ہے جو پہلى خرابيوں كى فہرست ميں زيادہ كى جا سكتى ہے جو ملك سے باہر جانے ميں پيدا ہونگى.
دوم:
آپ كے سفر كرنے پر طلاق معلق كرنے كے بارہ ميں عرض يہ ہے كہ اگر آپ نے ملك سے باہر سفر كيا تو طلاق واقع ہو جائيگى جيسا كہ آپ كے خاوند نے بيان كيا ہے، اور اس مسئلہ ميں علماء كرام كے ہاں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا؛ كيونكہ آپ كے خاوند نے طلاق كى نيت كر ركھى ہے جيسا كہ آپ بيان كر رہى ہيں.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 104614 ) اور ( 39941) اور ( 82400 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں، اور ايك ہى وقت ميں تين طلاق سے ايك طلاع واقع ہوگى، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 96194 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اگر وہ اپنى رائے تبديل كر كے آپ كو سفر كى اجازت دے دے تو پھر بھى اس كى استطاعت ميں اس معلق طلاق سے رجوع كرنا ممكن نہيں، اس كے ليے آپ مستقل فتاوى كميٹى كا فتوى پڑھنے كے ليے سوال نمبر ( 43481 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات