ہر سال شوال ميں منائى جانے والى نيكوں كى عيد " عيد الابرار " كا حكم كيا ہے ؟
نيكوں كى عيد والى بدعت
سوال: 12366
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بدعتى امور ميں سے شوال ميں منائى جانے والى عيد الابرار " نيكوں كى عيد " جو آٹھ شوال كو منائى جاتى ہے بھى شامل ہے.
ماہ رمضان كے روزے ركھنے اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے مكمل كرنے كے بعد آٹھ شوال كو عيد مناتے ہيں جسے انہوں نے عيد الابرار كا نام دے ركھا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شرعى تہواروں كے علاوہ دوسرے تہوار اور موسم بنانا مثلا ربيع الاول كى راتيں جن كے متعلق ميلاد كى راتيں كہا جاتا ہے، يا پھر رجب كى كوئى رات يا اٹھارہ ذوالحجہ كى رات يا رجب كا پہلا جمعہ يا آٹھ شوال جسے جاہل قسم كے لوگ عيد الابرار كا نام ديتے ہيں يہ سب بدعت ہے، سلف اسے مستحب نہيں سمجھتے تھے، اور نہ ہى انہوں نے ايسا كيا ہے, واللہ تعالى اعلم " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى شيخ الاسلام ( 25 / 298 ).
اور ايك دوسرى جگہ كہتے ہيں:
" آٹھ شوال كو نہ تو نيك اور ابرار لوگوں كى عيد ہے اور نہ ہى فاسق و فاجر قسم كے لوگوں كى، اور نہ كسى كے ليے اس روز عيد كا اعتقاد ركھنا جائز ہے، اور نہ ہى اس روز عيد كے شعائر اور علامامت ميں سے كوئى عمل كرنا جائز ہے " اھـ
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 199 ).
يہ تہوار كسى ايك مشہور مسجد ميں ہوتا ہے جہاں مرد و عورت كا اختلاط ہوتا ہے، مرد عورتوں سے مصافحہ كرتے اور زبان سے جاہليت كے الفاظ نكالتے ہيں، پھر اس مناسبت سے تيار كردہ كھانا تناول كرنے جاتے ہيں "
ديكھيں: السنن و المبتدعات للشقيرى ( 166 ).
ماخذ:
اور البدع الحوليۃ تاليف عبد اللہ بن عبد العزيز بن احمد التويجرى ( 350 )