ميں اكثر سنتا ہوں كہ جب مسلمان كے ہاں بچہ پيدا ہو تو اسے دو بكرے ذبح كرنا ہوتے ہيں، اور اگر بيٹى ہو تو ايك بكرا ذبح كرنا پڑتا ہے، تو كيا يہ سنت ہے يا واجب ؟
اور اگر واجب ہے تو اس كا ہدف كيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى وضاحت كيسے كى ہے، ميں نے كچھ بہنوں سے اس كے متعلق سنا ہے، ليكن مجھے اس كے صحيح ہونے كا يقين نہيں… ؟
عقيقہ كى حكمت
سوال: 12448
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
بچے كى پيدائش كے بعد جو جانور ذبح كيا جاتا ہے اسے عقيقہ كہتے ہيں، اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، كچھ علماء اسے واجب اور كچھ اسے سنت مؤكدہ قرار ديتے ہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" عقيقہ سنت مؤكدہ ہے، لڑكے كى جانب سے دو اور لڑكى كى جانب سے ايك بكرى جس طرح كى قربانى ميں ذبح ہوتى ہے اسى طرح عقيقہ كى بھى ذبح كى جائيگى، اور عقيقہ پيدائش كے ساتويں روز كيا جائيگا، اور اگر ساتويں روز سے تاخير كرے تو بعد ميں كسى بھى وقت عقيقہ كرنا جائز ہے، اور اس تاخير سے وہ گنہگار نہيں ہوگا، ليكن افضل اور بہتر يہى ہے كہ حتى الامكان جلد كيا جائے اور تاخير نہ ہو.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 439 ).
اس ميں ايك شاذ اور ضعيف قول بھى پايا جاتا ہے كہ عقيقہ مكروہ ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام احمد حنبل كى روايت ميں كہتے ہيں:
بعض سے بيان كيا گيا ہے كہ جو اسے مكروہ قرار ديتے ہيں كہ يہ جاہليت ميں سے ہے، وہ كہتے ہيں:
يہ ان كے علم كى قلت اور احاديث سے عدم معرفت كى بنا پر ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما كى جانب سے عقيقہ كيا، اور صحابہ كرام نے بھى اس پر عمل كيا، اور ان لوگوں نے اسے جاہليت ميں شامل كر ديا ہے.
عقيقہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے، اور آپ نے عقيقہ كے متعلق فرمايا:
" بچہ عقيقہ كے بدلے رہن اور گروى ہے "
اس كى سند جيد ہے، اسے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كرتے ہيں.
اور اثرم كى روايت ميں وہ كہتے ہيں: عقيقہ كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم احاديث ملتى ہيں، اور صحابہ كرام اور تابعين عظام سے مستند روايت ملتى ہيں، اور يہ لوگ كہتے ہيں كہ: يہ جاہليت كا علم ہے، اور وہ تعجب كے ساتھ مسكرائے "
ديكھيں: تحفۃ المودود ( 45 – 46 ).
دوم:
عقيقہ كا ہدف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كو معلوم كرنے سے معلوم ہو جاتا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ گروى اور رہن ركھا ہوا ہے "
علماء كرام اس كے معنى ميں اختلاف كرتے ہيں، ايك قول يہ ہے كہ: اس كا معنى يہ ہے كہ اگر عقيقہ نہ كيا جائے تو وہ بچہ اپنے والدين كى شفاعت كرنے سے روك ديا جائيگا.
اور ايك معنى يہ ہے كہ: عقيقہ بچے كو شيطان سے چھٹكارا اور خلاصى دلانے اور شيطان سے بچاؤ كا باعث و سبب ہے، والدين كى كوتاہى كى بنا پر بچہ اس خير سے محروم ہو جاتا ہے، چاہے وہ اس كى كمائى ميں نہيں، جيس طرح كہ اس كا والد بيوى سے جماع كرتے وقت دعا پڑھے تو بچہ شيطان سے محفوظ ہو جاتا ہے اور شيطان اسے تكليف نہيں ديتا، اور اگر وہ دعا نہ پڑھے تو بچے كو يہ نصيب حاصل نہيں ہوتا "
ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 325 ) اور الشرح الممتع ( 7 / 535 ).
سوم:
رہا يہ مسئلہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى وضاحت كس طرح كى، تو درج ذيل احاديث ميں اس كا بيان ملتا ہے:
1 – سلمان بن عامر الضبى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" بچے كے ساتھ عقيقہ ہے، تو تم اس كى جانب سے خون بہاؤ اور اس كى گندگى دور كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5154 ).
2 – عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بچے كى جانب سے پورى دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرنے كا حكم ديا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1513 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كہا ہے، سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3163 ) صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 1221 ).
3 – ام كرز رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقيقہ كے متعلق دريافت كيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بچے كى جانب سے دو بكرياں اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ہے، اس ميں كوئى نقصان نہيں كہ وہ بكرا ہو يا بكرى "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1516 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح قرار ديا ہے، سنن اور ابو داود حديث نمبر ( 2835 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3162 ) آخرى زائد الفاظ كو ابو داود حديث نمبر ( 2460 ) ميں روايت كيا گيا ہے.
4 – سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ رہن اور گروى ركھا ہوا ہے، اس كى جانب سے ساتويں روز ذبح كيا جائے، اور اس كا سر مونڈا جائے اور نام ركھا جائے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1522 ) ترمذى نے اسے حسن صحيح كيا ہے، اور سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3165 ) صحيح سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2563 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب