رمضان المبارک کے آنے پر آپ مسلمانوں کو کیا نصیحت کریں گے ؟
رمضان المبارک میں مسلمان کی حالت
سوال: 12468
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ماہ رمضان وہ ہےجس میں قرآن مجید اتارا گیا جولوگوں کو ھدایت کرنے والا ہے اورجس میں ھدایت کی اورحق و باطل کی تمیز کی نشانیان ہیں ، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیۓ ، ہاں جوبیمار ہویا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ، اللہ تعالی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اوراللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائياں بیان کرو اوراس کا شکر کرو البقرۃ ( 185 ) ۔
یہ موسم اوررمضان المبارک کا مہینہ خیر وبرکت اورعبادت واطاعت کا عظیم موسم ہے ، یہ بڑی عظمت والا مہینہ ، اورایک عزت وتکریم والے ایام ہیں جس میں نیکیاں بڑھتی ہیں ، اوربرائياں بھی بڑھتی ہیں ، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھلتے اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ۔
اس مہینہ میں گنہگاروں اورمعصیت کا ارتکاب کرنے والوں کی توبہ قبول کی جاتی
خیروبرکت کے اس موسم میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ، اللہ تعالی نے تمہیں جوخصوصی انعام وفضل دیا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکربجا لاؤ ، اس مہینہ کے شرف وفضل کے اوقات کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اللہ تعالی اوراس کے رسول کی اطاعت والے کام میں مشغول رہو ، حرام کاموں سے اجتناب کرو تا کہ زندگی میں سعادت حاصل کرسکو اورموت کے بعد بھی سعادت حاصل ہو ۔
پکے اورسچے مومن کے لیے توہرمہینہ ہی عبادت واطاعت کا موسم ہوتا ہے ، لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں اس کی ہمت بڑھ جاتی ہے اورعبادت کے لیے اس کا دل زیادہ نشیط اورچست ہوجاتا ہے ، وہ اپنے پروردگار کی ہربات قبول کرتا ہے ، ہمارا رب اور الہ بڑا ہی کریم ورحیم ہے وہ اپنی رحمت سے مومنوں کے روزوں کی نیکیاں زيادہ اورانہیں ان کے اعمال کا بہتر اجر عطا فرماتا ہے۔
آج کی رات کل رات سے کتنی مشابہ ہے ۔۔۔
یہ دن کتنی تيزرفتاری سے گزر رہے ہیں گویا کہ چند لحظات تھے ابھی ہم نے کچھ عرصہ قبل رمضان المبارک کا استقبال کیا اورپھر اسے الوداع بھی کیا اوراب کچھ ہی مدت گزرنے کے بعد ایک بار پھر رمضان المبارک کا استقبال کرنے کی تیاری میں ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینہ میں اعمال صالحہ کرنے میں جلدی کریں ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ مبارک میں اللہ تعالی کی رضا مندی والے کام کریں اورایسے کام کرنے پرحرص رکھیں جوروزقیامت ہماری سعادت کا باعث ہوں ۔
رمضان المبارک کی تیاری کس طرح کریں ؟
رمضان المبارک کی تیاری کے لیے انسان کواپنا محاسبہ کرنا چاہیےکہ اس نے کلمہ طیبہ کے تقاضہ کے مطابق عمل کیے ہیں یا کہ واجبات وفرائض میں کچھ کمی وکوتاہی کی ہے اورخواہشات وشبھات پرعمل پیرا رہا ہے ؟
لھذا مسلمان کورمضان المبارک میں اعلی درجہ کے ایمان پر فائز ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی رہتی ہے ، مسلمان کا ایمان اطاعت کرنے سے زيادہ اورقوی ہوتا ہے ، لیکن اگر نافرمانی کی جائے تو اس سے ایمان میں کمی اورنقصان پیدا ہوتا ہے ۔
سب سے پہلی اوراعلی قسم کی اطاعت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی توحید ثابت کی جائے اوراس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ معبود برحق صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ، اوراسی طرح بندے کو چاہیے کہ تمام قسم کی عبادات صرف اورصرف اللہ تعالی کے لیے بجالائے ، اورکسی بھی عبادت میں اللہ عزوجل کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئي شرک نہ کرے ۔
اورہم میں سے ہرایک کویہ یقین رکھنا چاہیے کہ اسے جو کچھ پہنچنے والا ہے وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتا وہ لامحالہ اسے پہنچ کررہے گا ، اورجواس سے دور رہ جائے وہ اس تک نہیں پہنچ سکتا ، یعنی جونقصان ہونا ہو وہ ہوکررہتا ہے اورجو نہ ہونا ہو وہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا ، اوریہ کہ ہر چيز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے ۔
ہمیں ہر اس چيز اورکام سے اجتاب کرنا چاہیے جو توحید کے مخالف ہو وہ اس طرح کہ ہمیں بدعات وخرافات اور دین میں نئي نئي رسم ورواج سے دور رہنا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ولاء والبراء پر بھی عمل کرنا ضروری ہے کہ ہم مسلمانوں اورمومنوں سے محبت وبھائي چارہ رکھیں ، لیکن اس کے مقابلہ میں ہمیں کفاراورمنافقوں سے دشمنی کرنی چاہیے اوران سے بغض رکھنا چاہیے ۔
ہمیں مسلمانوں کے کفارپر غالب ہونے پر خوش ہونا چاہیے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام کے طریقے پر عمل پیرا ہونا چاہیے ، اسی طرح ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء راشدین کی سنت اورطریقہ پر چلنا چاہیے ، ہم سنت سے محبت کریں اورجوسنت اوراحادیث پر عمل کرے اس سے ہمیں محبت کرنی چاہیے اوراس کا دفاع کرنا چاہیے چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو اورکسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھتا ہو ۔
اس کے بعد ہمیں اپنے آپ کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم میں کیا کمی وکوتاہی ہے ، ہم کتنی اطاعت کرتے ہیں ، جماعت کے ساتھ کتنی نمازیں ادا کرتے ہیں ، اللہ تعالی کا ذکر کتنا کرتے ہیں ، پڑوسی ، رشتہ داروں اورمسلمانوں کے حقوق کتنے ادا کرتے ہیں ، سلام عام کرنے چاہیے ، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا کام کرتے ہیں کہ نہیں ، ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہیں ، اوران سب کاموں میں آنے والی تکالیف پر صبر کریں ، اوربرائي کرنے سے بھی پرہیز کریں ، اللہ تعالی کی اطاعات کریں اورتقدیر پر بھی صبر کریں ۔
اس کے بعد معاصی اورشھوات کی اتباع کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراپنے آپ کو ان معاصی سے اجتناب کرنا چاہیے ، چاہے وہ معصیت چھوٹی ہویا بڑی ، اور اسی طرح وہ معصیت وگناہ آنکھ سے حرام چيز کی طرف دیکھنے ، یا پھر کان سے حرام اشیاء موسیقی اور گانے سننے پر بھی محاسبہ کرنا چاہیے اوراس سے پرہيز کرنا ضروری ہے ، اسی طرح اپنے پاؤں سے صرف اللہ تعالی کی رضا اورخوشنودی والے کام کی طرف ہی چلنا چاہیے ۔
اللہ تعالی کی نافرمانی والے کام میں نہیں چلنا چاہیے ، یا پھر ہاتھوں کو بھی وہاں استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جہاں پر اللہ تعالی کی نافرمانی ہوتی ہو ، اللہ تعالی کی طرف سے حرام کردہ اشیاء کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ، سود خوری اور رشوت وغیرہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، اوراسی طرح لوگوں کا ناحق مال کھانے سے بھی بچنا چاہیے اورمحاسبہ کرنا چاہیے ۔
ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالی دن کے وقت اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتا ہے تا کہ رات کا خطاکار توبہ کرلے ، اوررات کوہاتھ پھیلاتا ہے کہ دن کاخطا کار توبہ کرلے ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراپنے رب کی بخشش اوراس کی مغفرت کی طرف دوڑو ، جس کا عرض آسمانوں اورزمین کے برابر ہے ، جو پرہيز گاروں کے لیے تیار کی گئي ہے ، جولوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ پینے والے لوگوں سے درگزر کرنے والے ہيں ، اللہ تعالی ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔
اورجب ان لوگوں سے کوئي ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئي گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ تعالی کا ذکر اوراپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالی کے علاوہ کے سوا اورکون گناہوں کو بخش سکتا ہے ؟ اوروہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے ، انہيں ان کے رب کی طرف سے ان کا بدلہ مغفرت اورجنتیں ملیں گی جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ رہيں گے ، ان کا نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے } آل عمران ( 134 – 136 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
آپ ( میری جانب سے ) کہہ دیجیۓ ! کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زيادتی کی ہے تم اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ ، یقینا اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش اوربڑی رحمت والا ہے الزمر ( 53 ) ۔
اورایک مقام پر ایسے فرمایا :
اورجوبھی برے اعمال کرے یا پھر اپنے آپ پر ظلم کرلیا ہو اورپھر وہ اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے تووہ اللہ تعالی کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا ۔
اس لیے ہم پر اس محاسبہ اورتوبہ واستغفار کے ساتھ رمضان المبارک کا استقبال کرنا واجب وضروری ہے ، عقل مندوہ ہے جواپنے آپ کونيچا کرلے ، اورموت کے بعد کےلیے اعمال کرے ، اورعاجز وہ ہے اپنی خواہشات کی پیروی کرے اوربڑی بڑي تمنائیں قائم کرلے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ غنیمت اورفرصت کا مہینہ ہے جس میں بہت ہی زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے ، اورعقل مند اورتجارت میں مہارت رکھنے والا تاجر تو سیزن میں زيادہ سے زيادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اس لیے آپ بھی اس مہینہ کوموقع غنیمت جانیں اورنماز کثرت سے ادا کریں اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت بھی زيادہ سے زيادہ کرنی چاہیۓ ۔
ماہ رمضان میں ایک دوسرے سے درگزر کرنی چاہیے اوردوسروں کے ساتھ حسن سلوک اوراحسان کا معاملات کرنا ضروری ہے ، اسی طرح فقراء ومساکین پر زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کریں ۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں ہی جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجنہم کے دروازے بند ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سرکش قسم کے شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں ، اورہر رات میں ایک منادی کرنے والا یہ منادی کرتا رہتا ہے : اے خیروبھلائي سے دور بھاگنے والے واپس آجا اورخیروبھلائي کے کام کر ، اوراے شروبرائي کرنے والے برائي سے باز آجا اوراسے کم کردے ۔
اللہ کے بندو خیروبھلائي کرنے والے بنو اوراس میں سلف صالحین کی اتباع وپیروی کرتے ہوئے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کرو تا کہ ہم رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہوتو ہمارے سارے کے سارے گناہ معاف ہوچکے ہوں اورہمارے اعمال صالحہ قبول کرلیے جائيں ۔
آپ کوعلم ہونا چاہیے کہ رمضان المبارک کا مہینہ سب سے بہتر اور اچھا مہینہ ہے :
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی کی مخلوق میں فضیلت یہ بھی ہے کہ : رمضان المبارک کو باقی سب مہینوں پر فضیلت حاصل ہے ، اوررمضان کے آخری عشرہ کوباقی سب راتوں پرفضیلت حاصل ہے ۔ ا ھـ دیکھیں زاد المعاد ( 1 / 56 ) ۔
رمضان المبارک کا مہینہ باقی مہینوں پر چاروجہ سے افضل ہے :
اول :
اس مہینہ میں ایک ایسی رات ہے جو سارے سال کی راتوں پر افضل ہے جولیلۃ القدر کے نام سے پہچانی جاتی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی کے بارہ میں فرمایا :
یقینا ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا ، آپ کوکیا علم کے شب قدر کیا ہے ؟ ، شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہر کام کو سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اورروح ( جبریل ) اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے القدر ( 1 – 5 ) ۔
تواس رات میں کی گئي عبادت ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے ۔
دوم :
اس رات میں سب سے بہتر اورافضل آسمانی کتاب قرآن مجیدسب سے افضل سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔
اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا جولوگوں کوھدایت کی راہنمائی کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اورحق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہيں ، تم میں سے جو شخص بھی اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہیے البقرۃ ( 185 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہيں ، اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ہمارے پاس سے حکم بن کر ، ہم ہی رسول بنا کر بھیجنے والے ہیں الدخان ( 3 – 5 ) ۔
امام احمد اورطبرانی وغیرہ نے واثلہ بن الاسقع رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( صحف ابراھیم ( علیہ السلام ) رمضان المبارک کی پہلی رات میں نازل کیے گئے ، اورتورات سات رمضان میں نازل کی گئي ، اورزبور انیس رمضان میں نازل کی گئي ، اورقرآن مجید چوبیس رمضان کے بعدنازل کیا گیا ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے السلسلۃ الصحیحۃ ( 1575 ) میں حسن قرار دیا ہے ۔
سوم :
اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بندکرنے کے ساتھ ساتھ سرکش قسم کے شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب رمضان آتا ہے توجنت کے دروازنے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ) متفق علیہ ۔
امام نسائی رحمہ اللہ تعالی ابوھریرہ رضي اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 471 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
( رمضان المبارک کی پہلی رات بڑے بڑے سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ، اورجہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئي بھی کھولا نہیں جاتا ، اورجنت کے کے سب دروازے کھول دیےجاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی بند نہیں ہوتا ، اورایک منادی کرنے والا منادی کرتا رہتا ہے : اے خیر وبھلائی چاہنے والے اورزيادہ بھلائی کر، اور اے شرو برائی کرنے والے برائي کرنے سے باز آجاؤ ، اوراللہ تعالی کے جہنم سے آزادی بھی دیتا ہے ، یہ منادی ہررات کوکی جاتی ہے ) سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 759 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہم دیکھتے ہيں کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں بھی بہت سی برائياں اورمعصیت کا ارتکاب دیکھتے ہیں تواگر شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہوتوان کا وقوع نہ ہو ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ :
یہ توصرف اس شخص سے کم ہوتی ہے جوروزے کی شروط اوراس کے آداب پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔
یا پھر یہ ہے کہ بڑے بڑے سرکش شیطانوں کو جکڑا جاتا ہے نہ کہ سب کو۔
یا پھر رمضان المبارک میں شر وبرائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے جوکہ محسوس بھی ہوتا ہے کیونکہ رمضان میں باقی مہینوں کے اعتبار سے برائي اورشرمیں کمی ہوتی ہے ، اورپھر یہ بھی ہے کہ سب شیطانوں کے جکڑے جانے پر بھی سب برائیاں اورمعصیت نہیں رک نہیں سکتیں ، اس لیے کہ معصیت کے شیطان کے علاوہ اوربھی کئي اسباب ہیں مثلا :
خبیث اورگندے نفس کے مالک لوگ ، گندی عادتیں ، اورانسانوں میں سے شیطان صفت لوگ ۔ دیکھیں فتح الباری ( 4 / 145 ) ۔
چہارم :
اس مہینہ میں بہت ساری عبادات ہیں جوباقی مہینوں میں نہیں پائي جاتی ، مثلا روزے اورقیام اللیل ، کھانے کھلانا ، اعتکاف کرنا ، صدقہ و خیرات ، قرات قرآن ۔
میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہم سب کو اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورصحیح معنی میں روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ، اللہ تعالی اطاعت کرنے اورمنکرات سے بچنے کی توفیق دے ، آمین یا رب العالمین ۔
والحمد للہ رب العالمین ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات