بعض اوقات كسى بھى شخص كى وفات ہوتى ہے يا تو جس نے خود كشى كى ہو، يا پھر زيادہ نشہ كرنے كى بنا پر اس كى وفات ہو جاتى ہے، يا كوئى شر اور زيادتى كى بنا پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس كے حملہ سےبچاؤ ميں حملہ آور ہلاك ہو جاتا ہے، تو كيا مذكورہ بالا يا كسى اور سبب كى بنا پر ہلاك ہونے والے شخص كى والدہ سے اس كے رشتہ دار تعزيت كر سكتے ہيں، كيونكہ ميں اس مسئلہ ميں بہت زيادہ متردد ہوں، كيا تعزيت كے ليے جاؤں يا نہ ؟
گنہگار لوگوں كى تعزيت كرنا
سوال: 12530
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تعزيت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ مستحب ہے، اگرچہ فوت ہونے والا شخص خود كشى يا كوئى فعل كرنے كى بنا پر گنہگار ہے، جيسا كہ بطور قصاص يا حد ميں قتل ہونے والےمثلا شادى شدہ زانى كے خاندان سے تعزيت كرنا مستحب ہے، اور اسى طرح نشہ آور اشياء استعمال كرنے كى بنا پر مرنے والے كے اہل و عيال سے تعزيت كرنے ميں بھى كوئى مانع نہيں، اور اس كے ليے اور اس طرح كے دوسرے گنہگار افراد كے ليے دعائے مغفرت اور رحمت كرنے ميں كوئى مانع نہيں، اور انہيں غسل بھى ديا جائےگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا ہو گى، ليكن اس كى نماز جنازہ ميں اہميت كے حامل معين اورخاص مسلمان افراد مثلا حكمران، قاضى اور جج اور امير يا گورنر وغيرہ شريك نہ ہوں، بلكہ كچھ لوگ اس كى نماز جنازہ ادا كريں، تا كہ اس قسم كے افعال كرنے والے دوسرے افراد كے ليے درس عبرت بن سكے.
ليكن وہ شخص جو كسى دوسرے كى زيادتى اورظلم كى بنا پر فوت ہو جائے تو يہ مظلوم ہے، اگر وہ شخص مسلمان ہے تو اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائےگى اور اس كے ليے دعا بھى كى جائےگى.
اور اسى طرح جو بطور قصاص قتل ہو – جيسا كہ اوپر كى سطور ميں بيان بھى ہوا ہے ـ تواگر يہ مسلمان ہے اور اس سے ايسا كوئى فعل سرزد نہيں ہوا جو اسے مرتد قرار ديتا تو اس كى بھى نماز جنازہ ادا كى جائےگى اور اس كے اہل وعيال كے ساتھ تعزيت بھى.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخذ:
مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ تعالى ( 13 / 374 )