جمرات کو کنکریاں مارنے کی کتاب و سنت میں کیا دلیل ہے؟
دوران حج جمرات کو کنکریاں مارنے کی دلیل
سوال: 125711
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حج کرنے والے کے لیے جمرات کو کنکریاں مارنا حج کے شرعی واجبات میں شامل ہے، احادیث نبویہ میں اس کی صراحت موجود ہے، اور ان احادیث کی صحت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فضل بن عباس کو اپنے پیچھے بٹھایا تھا، اور فضل بتلاتے ہیں کہ آپ جمرات کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پڑھتے رہے تھے۔
اس حدیث کو امام بخاری: (1685) اور مسلم : (1282) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ بڑے جمرے کے پاس پہنچے اور قبلہ کو اپنی بائیں جانب رکھا، منی کو دائیں جانب اور پھر سات کنکریاں ماریں، اور پھر کہا: جن -صلی اللہ علیہ و سلم -پر سورت البقرۃ نازل ہوئی انہوں نے اسی طرح کنکریاں ماری تھیں ۔
اس حدیث کو امام بخاری: (1748) اور مسلم : (1296) نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ منی کے قریبی جمرے کو سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آپ آگے بڑھتے اور وادی کی نرم جگہ میں پہنچ جاتے اور قبلہ رخ ہو کر کافی دیر کھڑے رہتے ، اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے، پھر آپ درمیانے جمرے کو کنکریاں مارتے اور کچھ بائیں جانب ہو لیتے اور وادی کی نرم جگہ میں پہنچ کر قبلہ رخ ہو کر کافی دیر قیام کرتے اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے، پھر اس کے بعد ذات العقبہ [آخری جمرہ] کو وادی کے درمیان میں کھڑے ہو کر ہی کنکریاں مارتے اور اس کے بعد کھڑے نہ ہوتے اور چلے جاتے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ فرماتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
بخاری: (1751)
علامہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ جس شخص نے ایام تشریق میں زوال آفتاب کے بعد رمی کی تو یہ اس کے لیے کافی ہے۔" ختم شد
الاجماع، از: ابن المنذر: (11)
اسی طرح ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ عید قربان کے بعد تین دن جمرات کو رمی کرنے کے دن ہیں، چنانچہ ان دنوں میں اگر کوئی شخص زوال کے بعد رمی کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہے۔" ختم شد
مراتب الاجماع، از: ابن حزم: (46)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"منی پہنچ کر پہلے جمرہ عقبہ پر رمی کرے، یہ جمرہ منی کی جانب سے آخری جمرہ ہے، اور مکہ کی جانب سے پہلا جمرہ ہے، یہی جمرہ عقبہ کے پاس ہے اسی وجہ سے اس کا نام جمرہ عقبہ رکھا گیا ہے۔ اسے سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے، پھر وادی کے درمیان میں پہنچ کر قبلہ رخ چل پڑے رکے مت۔ یہ مختصراً انداز میں ہمارے علم کے مطابق اہل علم کا موقف ہے۔" ختم شد
" المغنی" (3/218)
ابو حامد غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے حکم الہی کی تعمیل ذہن میں رکھیں تا کہ مکمل طور پر اللہ تعالی کی غلامی اور عبدیت ظاہر ہو، احکامات کی پیروی خالصتاً واضح ہو، ذہن میں تازہ رہے کہ یہ کام کرتے ہوئے کسی بھی عقلی یا نفسیاتی توجیہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مشابہت اختیار کرنے کا ارادہ کریں؛ کیونکہ انہی جگہوں پر ابلیس ملعون نے سیدنا ابراہیم کو بہکانے کی کوشش کی تھی کہ آپ علیہ السلام کے حج کو مشکوک بنائے، یا کسی گناہ میں ملوث کر دے تو اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ اسے بھگانے کے لیے پتھر مارے اور شیطان کی امیدوں پر پانی پھر جائے؛ چنانچہ اگر تمہارے دل میں یہ بات آئے کہ ابراہیم علیہ السلام کے سامنے شیطان آیا اور بہکانے کی کوشش تھی اس لیے انہوں نے اسے پتھر مارے تھے لیکن مجھے تو شیطان نہیں بہکا رہا !! تو سمجھ لیں یہ بات بھی شیطان کی طرف سے ہی ہے، اسی نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی ہے تا کہ آپ رمی جمرات سے کنارہ کشی اختیار کریں، وہی آپ کے دل میں یہ بات ڈال رہا ہے کہ اس کام کو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ تو فضول اور لا یعنی حرکت ہے آپ یہ کام کیوں کرنے لگے ہیں!؟ تو فوری طور پر آپ شیطان کو بھگانے کے لیے شیطان کی چاہت کے برعکس جمرات کو کنکریاں ماریں اور اس کے عزم کو خاک میں ملا دیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آپ ظاہری طور پر تو جمرے کو کنکری مار رہے ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں آپ شیطان کے منہ پر کنکری رسید کر رہے ہوتے ہیں اور اس کنکری سے شیطان کی کمر توڑ رہے ہوتے ہیں؛ کیونکہ شیطان کی ناک اسی وقت خاک میں ملتی ہے جب آپ دل میں نفسیاتی یا عقلی توجیہ کے بغیر اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل اللہ تعالی کی تعظیم کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ " ختم شد
" احیاء علوم الدین " (1/270)
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب