كيا حاملہ عورت كو طلاق دينا جائز ہے ؟
حاملہ عورت كو طلاق دينے كا حكم
سوال: 12590
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حاملہ عورت كو حالت حمل ميں طلاق دينا طلاق سنت كہلاتى ہے، عام اور اكثر لوگوں ميں يہ معروف ہو چكا ہے كہ ايسا كرنا سنت كے مخالف ہے، حالانكہ ان كے اس قول كى كوئى اصل نہيں اور نہ ہى اس كى كوئى دليل ملتى ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى طلاق كا قصہ بيان كيا ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسے حكم دو كہ وہ اس سے رجوع كرے، اور پھر اسے پاكى اور طہر كى حالت ميں يا پھر حمل كى حالت ميں طلاق دے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1471 ).
امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں حاملہ عورت جس كا حمل واضح ہو چكا ہو كو طلاق دينے كے جواز كى دليل پائى جاتى ہے، امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اكثر علماء كرام جن ميں طاؤس، حسن، ابن سيرين، ربيعہ، حماد بن ابى سليمان، مالك، احمد، اسحاق، ابو ثور، ابو عبيد شامل ہيں كا بھى يہى قول ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميرا قول بھى يہى ہے، اور بعض مالكى حضرات بھى يہى كہتے ہيں، اور ان ميں سے بعض كا كہنا ہے: يہ حرام ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ نے حسن سے ايك اور روايت بيان كى ہے كہ: حاملہ عورت كو طلاق دينا مكروہ ہے " اھـ
اور ابن قيم رحمہ اللہ تھذيب السنن ميں كہتے ہيں:
" خاوند اسے يا تو طہر كى حالت ميں يا پھر حمل كى حالت ميں طلاق دے "
يہ اس بات كى دليل ہے كہ حاملہ عورت كو طلاق دينا طلاق سنى كہلاتى ہے " اھـ
سوال نمبر ( 12287 ) كے جواب ميں حاملہ عورت كے بارہ ميں شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا فتوى بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات