ميں مسلمان عورت ہوں اور جاپان ميں رہتى ہوں، يہاں كچھ معاملات كے ليے آئے ہوئے ايك سعودى شخص سے ميرا تعارف ہوا ميں نے اس سے شادى كر لى ليكن نہ تو اس شادى ميں گواہ تھے اور نہ ہى اس نے مجھے كوئى مہر ديا، صرف بعض اوقات وہ مجھے كوئى چيز بطور تحفہ اور ہديا ديتا تھا، يہ علم ميں رہے كہ وہ سعوديہ ميں شادى شدہ ہے، ميں نے اسے كہا كہ وہ مجھے اپنے ساتھ سعودى عرب لے جائے، يا پھر كسى ايسى قريب جگہ جہاں قريب رہ كر زندگى بسر كى جا سكے، ليكن وہ انكار كرتا ہے اور كہتا ہے ايسا ممكن ہى نہيں، ميں بہت پريشان ہوں، اس ليے آپ يہ بتائيں كہ اس پر ميرا حق كيا ہے اور ميں اس سے كس چيز كا مطالبہ كر سكتى ہوں ؟
مہر اور گواہوں كے بغير شادى كر لى اور اب اپنے ملك ساتھ لے جانے سے بھى انكار كرتا ہے
سوال: 126254
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نكاح ميں نكاح كے اركان اور شروط كا ہونا ضرورى ہے اس ميں عورت كا ولى، اور دو گواہ شامل ہيں، اس ليے اگر نكاح ميں ولى اور گواہ نہ ہوں اور لوگوں ميں نكاح كا اعلان نہ كيا جائے تو يہ نكاح صحيح نہيں ہے.
اور اگر نكاح ميں صرف ولى نہ ہو تو جمہور علماء كے ہاں نكاح صحيح نہيں، ليكن بعض فقھاء كے ہاں صحيح ہے، اور اگر گواہ نہ ہوں ليكن لوگوں ميں اعلان كيا گيا ہو تو بعض اہل علم كے ہاں يہ اعلان ہى كافى ہے.
اور پھر مسلمان عورت كے ولى كا مسلمان ہونا ضرورى ہے اور اس كا ولى اس كا بيٹا اگر ہو اس كے بعد اس كا باپ پھر دادا پھر اس كا بھائى ولى ہوگا، اسى طرح عصبہ شخص جو قريبى ہے اس كے بعد اس كے بعد والا.
اور اگر اس كا ولى مسلمان نہ ہو تو مسلمان قاضى اس كى شادى كريگا، اور اگر مسلمان قاضى بھى نہ ہو تو پھر اسلام سينٹر كا چئرمين وغيرہ اس كى شادى كريگا، يا پھر اس كى رضامندى سے عام كوئى بھى مسلمان شخص اس كا نكاح كريگا.
عورت كے ليے مہر كا ہونا ضرورى ہے چاہے تھوڑا ہى ہو اور اگر عقد نكاح ميں مہر ذكر نہ كيا گيا ہو تو نكاح صحيح ہے ليكن اسے مہر مثل ملےگا؛ يعنى اس كے ليے اتنا مہر دينے كا حكم ديا جائيگا جتنا اس طرح كى عورتوں كو اس كے علاقے ميں مہر ديا جاتا ہے.
چاہے آپ كا نكاح صحيح ہے يا فاسد مہر آپ كا حق ہے، اور اگر آپ كا بچہ پيدا ہوا ہو تو اسے اس كى باپ كى طرف منسوب كيا جائيگا.
اور ولى اور گواہ اور اعلان نہ ہونے كى حالت ميں نكاح فاسد ہونے كى صورت ميں آپ كو چاہيے كہ اس شخص كو اپنے قريب مت آنے ديں، حتى كہ صحيح نكاح نہ ہو جائے، اور پھر نكاح كى تصديق اور معاملات آپ كے ملك ميں سعودى سفارت خانہ سے ہونى چاہيے تا كہ مستقل ميں آپ اور آپ كى اولاد كے حقوق محفوظ رہيں.
دوم:
خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے شان شايان رہائش كا انتظام كرے، اور جتنے اخراجات كى محتاج ہے وہ بھى اس كو دے، بيوى كو ايسے علاقے اور ملك ميں نہ چھوڑے جہاں وہ محفوظ نہيں اور نہ ہى بيوى كى رضامندى كے بغير چھ ماہ سے زائد اس سے دور رہے، اور جہاں اس سے شادى كى ہے وہاں اس كا كام اور ملازمت يا تعليم يا تجارت وغيرہ ختم ہو جائے اور وہ اپنے ملك جانا چاہے تو اس پر واجب ہے كہ وہ بيوى كو اپنے ساتھ لائے، اور كم از كم اسے اس شہر كے قريب دوسرے شہر ميں ركھے جہاں اس كى دوسرى بيوى رہتى ہے، تا كہ پہلى بيوى كے ساتھ معاملات كو صحيح كر سكے.
اگر وہ بيوى كو اس كے حقوق دينے سے انكار كرے، يا پھر اپنے ساتھ لےجانے سے انكار كرتا ہے اور جہاں اس نے شادى كى بيوى كو وہيں اس مدت جو ہم بيان كر چكے ہيں سے زيادہ چھوڑنا چاہے اور بيوى اس پر راضى نہ ہو تو بيوى كو طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہے.
ہم ان مسلمان عورتوں كو جو آپ جيسے ممالك ميں رہتى ہيں انہيں نصيحت كرتے ہيں، اور ان عورتوں كے اولياء كو بھى ہمارى نصيحت ہے كہ جو بھى ان سے شادى كرنا چاہے وہ اس كے متعلق مكمل طور پر تحقيق اور باز پرس كر ليں تا كہ ان كى بيٹيوں كو وہ لوگ دھوكہ نہ ديں جو ان كے ملك ميں تجارت يا تعليم يا سير و سياحت كے ليے آئے ہيں.
كيونكہ بہت سارے ايسے افراد شادى كے معاملہ ميں سنجيدہ نہيں ہوتے، اور نہ ہى وہ اسے پختہ عہد اور گھر بنانا چاہتے ہيں كہ ايك نئے خاندان كى بنياد ركھى جائے، بلكہ ان كا ارادہ اور نيت تو صرف اپنى شہوت پورى كرنا اور عيش و عشرت ہوتى ہے.
اس ليے جب وہ اپنى ضرورت پورى كر ليتے ہيں تو وہ ملك چھوڑ كر چلتے بنتے ہيں اور بيوى كو وہيں چھوڑ كر بعض اوقات اولاد بھى وہيں چھوڑ كر انہيں پوچھتے تك بھى نہيں ليكن:
عنقريب اللہ تعالى انہيں پوچھےگا جو كچھ وہ كر رہے ہيں المآئدۃ ( 14 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب