ميں ايك جوان مسلمان لڑكى ہوں جو ايك كافرہ ماں اور باپ كى منہ بولى بيٹى ہے، باپ كہتا ہے كہ وہ مسلمان ہے ليكن نہ تو نماز ادا كرتا ہے اور نہ ہى روزے ركھتا ہے، بلكہ رمضان المبارك ميں اعلانيہ طور پر دن كے وقت شراب نوشى كرتا ہے اور مجھے پردہ بھى نہيں كرنے ديتا، مجھے شادى كرنے سے بھى روك رہا ہے.
نہ تو ميں پردہ كر سكتى ہوں اور نہ ہى كفؤ اور مناسب رشتہ والے شخص سے شادى كر سكتى ہوں، اس وجہ سے مجھے زدكوب بھى كيا گيا ہے، اور جس علاقے ميں رہتى ہوں وہاں شرعى قاضى بھى نہيں، ميں جرمنى ميں رہتى ہوں.
ميں نےايك مسلمان شخص سے ايك مسجد امام مسجد اور اس كے دوست اور دو گواہوں اور ولى كى موجودگى ميں شادى كى، كيا اس كى ولايت مجھ سے ساقط ہو جائيگى، وہ ميرا والد نہيں اور نہ ہى ميں اپنے خاندان كو جانتى ہوں اس ملك ميں سوائے اس خاوند كے كوئى اور مسلمان ميرا نہيں ہے ؟
اگر پرورش كرنے والے كے علاوہ نكاح ميں كوئى اور ولى نہ ہو
سوال: 126430
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نكاح صحيح ہونے كے ليےشرط ہے كہ عورت كا ولى يا اس كى وكيل عقد نكاح كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا ”
اسے عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيہقى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس عورت نے بھى اپنے ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے “
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس مسئلہ ميں صحابہ كرام جن ميں عمر بن خطاب اور على بن ابى طالب اور عبد اللہ بن عباس اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ وغيرہ ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اس حديث پر عمل ہے:
” ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا ” انتہى
عورت كا ولى اس كا باپ پھر اس كا دادا پھر اس كا بيٹا ( اگر اس كا بيٹا ہو ) پھر اس كا ماں اور باپ كى جانب سے بھائى پھر صرف باپ كى جانب سے بھائى، پھر بھائيوں كے بيٹے پھر اس كے چچا، پھر چچا كے بيٹے، پھر حاكم ”
ديكھيں: المغنى ( 9 / 355 ).
ليكن آپ كى كفالت كرنے والا شخص يا جس شخص نے آپ كى پرورش كى اور منہ بولى بيٹى بنايا ہے وہ آپ كا نكاح ميں ولى شمار نہيں ہوگا.
اس بنا پر جب آپ كو اپنے اولياء كے بارہ ميں علم ہى نہيں تو آپ كى شادى شرعى قاضى كريگا، اگر وہ نہ ہو تو اسلامك سينٹر كا چئرمين يا امام مسجد يا كوئى عالم دين يا مسلمانوں ميں سے عادل شخص.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جس عورت كا ولى نہ ہو اگر تو بستى يا محلہ ميں حاكم كا نائب ہو تو وہ اسكى شادى كريگا، اور بستى كا نمبردار ، اور اگر ان ميں كوئى ايسا امام ہو جس كى لوگ بات تسليم كرتے ہوں تو عورت كى اجازت سے وہ شادى كر ديگا ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 35 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر عورت كا ولى بھى نہ ہو اور حكمران بھى تو امام احمد سے مروى ہے كہ عورت كى اجازت سے كوئى عادل شخص اس كى شادى كر دےگا ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 352 ).
اس بنا پر الحمد للہ آپ كى شادى صحيح ہوئى ہے.
دوم:
آپ كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ دين اسلام ميں متبنى يعنى لےپالك اور منہ بولا بيٹا يا بيٹى بنانا حرام ہے، اور بچے كى نسبت اپنى طرف كرنى گويا كہ وہ اس كا بيٹا ہے يہ حرام ہے.
ليكن يتيم كى كفالت كرنا بہت عظيم اور اچھا عمل ہے اس كا اجروثواب بہت زيادہ ہے، ليكن اگر كفالت ميں بچى ہو اور تو بچى بالغ ہونے كے بعد وہ اس شخص سے پردہ كريگى جو اس كى كفالت كر رہا تھا، كيونكہ وہ اس كے ليے اجنبى ہے.
لےپالك اور متنبى اور يتيم كى كفالت ميں فرق معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر (5201 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
ليكن جس شخص نے آپ پراحسان كيا ہے آپ بھى اس كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آئيں، اور اس كا ادب و احترام كريں اور حتى الامكان اس سے رحمدلى اور نرمى كا برتاؤ كرنے كى كوشش كريں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو دين و دنيا كى سعادت و خوشى عطا فرمائے، اور آپ كے ايمان و اصلاح ميں بركت دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات