ميں ايك نيك و صالح اور دين كا التزام كرنے والے شخص سے شادى شدہ ہوں، اس نے اپنے خاندان والوں سے خفيہ طور پر ميرے ساتھ شادى كى كيونكہ وہ پہلے بھى شادى شدہ تھا، اس كى رغبت كا احترام كرتے ہوئے ميں نے بہت سارے حقوق ختم كر ديے تا كہ يہ راز قائم رہے، اس طرح ميں اس سے رابطہ كرنے ميں مشكل سے دوچار رہنے لگى، ميرى شادى كو ايك برس ہو چكا ہے ليكن اس عرصے ميں اسے ميں نے صرف چوبيس دن ديكھا ہے.
اور بالآخر ميں نے فيصلہ كيا كہ ميں اس كى بيويوں اور خاندان والوں كو بتا دوں ہو سكتا ہے وہ ميرے ساتھ نرمى و رحمدلى كا سلوك كرتے ہوئے ميرا تعاون كريں، ليكن اچانك مشكل اور بڑھ گئى كيونكہ ميں چھ ماہ كى حاملہ ہوں اس حالت ميں خاوند نے مجھے موبائل ميسج كر كے طلاق دے دى.
مجھے حق سننے والا كوئى نہيں ملا ليكن اس سے بھى بڑھ كر ظلم يہ كہ ميرا خاوند حمل گرانے كا مطالبہ كر رہا ہے! اس سلسلہ ميں شريعت كيا كہتى ہے ؟
ميں تو ضائع اور تباہ ہو گئى ہوں كيونكہ ميرا نكاح سركارى طور پر رجسٹر نہيں ہوا، بلكہ صرف شرعى طور پر والد صاحب اور دو گواہوں كى موجودگى ميں نكاح ہوا تھا، اب ميں تو يہى كہتى ہوں كہ مجھے اللہ ہى كافى ہے، ميں نے اس كے خاندان والوں كو بتا كر كوئى برائى نہيں كى، كيونكہ ميرا خيال تھا كہ وہ سمجھتے ہيں، ليكن معاملہ اس كے برعكس اور الٹ ہو كيا، اب مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
غير قانونى نكاح كر كے خاوند كى دوسرى بيويوں كو شادى كا بتا ديا تو خاوند نے طلاق دے دى اور اب وہ حمل گرانے كا مطالبہ كرتا ہے!
سوال: 126909
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آپ كے والد نے سركارى طور پر نكاح رجسٹر نہ كرا كر بہت بڑى غلطى كى ہے كہ اس نے عرفى نكاح كر ديا، ہم كئى بار بيان كر چكے ہيں كہ يہ عرفى نكاح اگرچہ نظرياتى ناحيہ سے شرعى ہے، ليكن نكاح سركارى طور پر رجسٹر نہ كرانے ميں بہت سارے نقصانات اور عظيم خرابياں پائى جاتى ہيں جن ميں سے اہم يہ ہيں:
رسمى طور پر كاغذات ميں بچے كى نسبت والد كى طرف كرنا مشكل ہوتا ہے، اور اسى طرح عورت كے مالى حقوق بھى محفوظ نہيں رہتے مثلا مہر اور وراثت وغيرہ يہ ايسے امور ہيں جو كسى عقلمند كے ليے مخفى نہيں.
مزيد آپ سوال نمبر (45513 ) اور (45663 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
دوم:
طلاق دينے والا جس سے بھى طلاق كى تعبير كر سكتا ہو اس سے طلاق واقع ہو جاتى ہے چاہے وہ كلام ہو يا لكھ كر يا پھر اگر وہ گونگا ہے تو اشارہ كے ساتھ، اور خاوند كے موبائل سے كيا گيا طلاق كا ميسج جس ميں بيوى كو طلاق دى گئى ہو سے طلاق واقع ہو جاتى ہے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ يہ ثابت ہو جائے كہ ميسج كرنے والا خود خاوند ہے، اور اس نے بغير كسى جبر و اكراہ كے يہ ميسج كيا ہو.
مزيد آپ سوال نمبر (70460 ) اور (36761 ) اور (20660 ) كے جوابات كا بھى مطالعہ كريں.
سوم:
اكثر اور عام لوگ يہ خيال اور اعتقاد ركھتے ہيں كہ حاملہ عورت كو طلاق واقع نہيں ہوتى، ليكن ان كا يہ گمان و خيال غلط اور باطل ہے، بلكہ حاملہ عورت كى طلاق شرعى ہے اور يہ سنت كے مطابق ہے.
مزيد دلائل ديكھنے كے ليے اور علماء كرام كے اس كے متعلق اقوال كا مطالعہ كرنے كے ليے سوال نمبر (12287 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر آپ كا خاوند اقرار كر چكا ہے كہ اس نے ہى يہ ميسج كيا تھا اور اس ميں جو كچھ تھا اسے اس كا علم ہے اور اس كے معانى كا مقصد يہى تھا تو آپ كو طلاق ہو چكى ہے اور يہ ايك طلاق شمار ہو گى.
اور اب آپ طلاق كى عدت ميں ہيں حتى كہ حمل وضح ہو جائے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور حمل واليوں كى عدت وضع حمل ہے الطلاق ( 4 ).
اور يہ عدت مطلقہ عورت اور جس كا خاوند فوت ہو جائے دونوں كو شامل ہو گى.
اس طلاق كے نتيجہ ميں يہ مرتب ہوتا ہے كہ: آپ خاوند كے گھر ميں رہيں اور اپنے اختيار سے وہاں سے مت نكليں، اور اسى طرح خاوند كے ليے بھى حلال نہيں كہ وہ آپ كو اس گھر سے نكالے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت سے كہو كہ ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو، اور عدت كا حساب ركھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہيں ان كے گھروں سے نكالو، اور نہ ہى وہ ( خود ) نكليں ہاں يہ اور بات ہے وہ كھلى برائى كر بيٹھيں، يہ اللہ كى مقرر كردہ حديں ہيں، جو شخص اللہ كى حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے يقيناً اپنے اوپر ظلم كيا، تم نہيں جانتے كہ شائد اس كے بعد اللہ تعالى كوئى نئى بات پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).
اور دوران حمل آپ كا خاوند آپ كو اپنى عصمت ميں واپس لينا كا زيادہ حقدار ہے، جيسا كہ اللہ تعالى كے اس فرمان ميں بيان ہوا ہے:
اور ان كے خاوند اس ميں انہيں واپس لينے كے زيادہ حقدار ہيں جب وہ اصلاح كا ارادہ ركھتے ہوں البقرۃ ( 228 ).
چہارم:
رہا آپ كے خاوند كا آپ سے اسقاط حمل كا مطالبہ كرنا اور آپ كا حمل چھ ماہ كا ہو چكا ہے تو يہ مطالبہ برائى ہے اور اسے اس كا كوئى حق حاصل نہيں، اور آپ كے ليے اس كے ارادہ اور مطالبہ پر عمل كرتے ہوئے اپنا حمل ساقط كروانا حلال نہيں، كيونكہ يہ ايك جان كو ناحق اور بےگناہ قتل كرنا ہے.
ايسا كرنے ميں گناہ اور ديت ہے جو كہ دين جنين كہلاتى ہے اور وہ ايك غلام يا لونڈى كى قيمت كى ادائيگى ہے جو يہ علماء مقرر كرينگے جو بچے كى ماں كى ديت كا عشر ہو گا، اور كفارہ بھى ہے جو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا ہونگے، اور آپ اور آپ كا خاوند دونوں ہى ديت اور گناہ ميں شريك ہيں، اور تم دونوں پر دو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھنا ہونگے، جيسا كہ سوال نمبر (40269 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
چنانچہ آپ اسقاط حمل سے گريز كريں، اور كوئى ايسا فعل سرانجام دينے ميں اللہ سے ڈريں جو آپ كے ليے شرعاً حلال نہيں ہے، اور آپ خاوند كو بھى اللہ كا خوف دلائيں اور يہ علم ميں ركھيں كہ اس مسئلہ ميں آپ كے ليے خاوند كى اطاعت كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ وہ جو چاہتا ہے وہ ايك معصيت و نافرمانى ہے، اور اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں كسى كى بھى اطاعت نہيں ہو سكتى.
آپ اپنے والد يا علق و دانش و حكمت ركھنے والے جس شخص كو پسند كرتى ہوں اپنے اور خاوند كے مابين واسطہ بنائيں تا كہ وہ آپ كو وقت گزرنے سے قبل اپنى عصمت ميں واپس لے لے، اور جب ايسا ہو جائے تو آپ ( اور آپ كا والد بھى ) سركارى طور پر نكاح رجسٹر كرانے كى كوشش كريں چاہے اس ميں مشقت اٹھانى پڑے اور مشكل بھى پيش آتى ہو.
اور اگر وہ انكار كرے اور آپ كو طلاق دينے پر ہى مصر ہو تو پھر آپ اس آزمائش پر صبر كريں اور اپنے معاملہ كو اللہ كے سپرد كر ديں، اور نااميد مت ہوں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى آپ كو اس بچے ميں خير ركھى ہو، اور آپ كو اس خاوند سے بھى كوئى بہتر خاوند مل جائے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ بڑى وسعت والا اور حكمت والا ہے النساء ( 130 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات