ميں اٹھارہ برس كا جوان ہوں اور شادى نہيں كرنا چاہتا كيونكہ بہت ہى شرميلا ہوں، اور مجھے عورتوں سے بہت زيادہ شرم محسوس ہوتى ہے، اور پھر ميں آپريشن كے ذريعہ جنسى شہوت بھى ختم كرانا چاہتا ہوں، ميں نے اللہ كى قسم كھائى ہے كہ شادى نہيں كرونگا، كيا اگر ميں شادى نہيں كرتا تو گنہگار ٹھروں گا ؟
عورتوں سے شرم و حياء كى بنا پر شادى نہ كرنا اور جنسى شہوت ختم كروانا
سوال: 127165
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالى نے آپ كو جس قابل تعريف خصلت اور عظيم صفت سے نواز ہے اس پر آپ خوش ہوں، اور اس صفت سے متصف ہونے كے ليے تو شريعت مطہرہ نے بھى ترغيب دلائى ہے شرم و حياء كى فضيلت ميں بہت سارى احاديث وارد ہيں:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك انصارى شخص كے پاس سے گزرے جو اپنے بھائى كو شرم و حياء كے بارہ ميں نصيحت كر رہا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" رہنے دو كيونكہ حياء تو ايمان ميں شامل ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 24 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 36 ).
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ رياض الصالحين كى شرح ميں كہتے ہيں:
" شرم و حياء يہ ہے كہ دل ميں انكسارى اور ايسے فعل پر شرمانا جس كا لوگ اہتمام نہيں كرتے، يا جسے لوگ مستحسن نہيں سمجھتے.
اللہ سے حياء اور مخلوق سے حياء يہ ايمان كا حصہ ہے، اللہ سے حياء بندے كو اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى اور ہر غلط كام سے اجتناب كرنا واجب كرتا ہے.
اور لوگوں سے شرم و حياء بندے كو مرؤوت استعمال كرنا واجب كرتا ہے، اور ايسا كام كرے جو لوگوں كے ہاں اسے خوبصورت اور مزين بنائے، اور ايسے كاموں سےاجتناب كرے جو اسے بدصورت بناتے ہيں، چنانچہ حياء ايمان كا حصہ ہے " انتہى
ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 4 / 29 – 30 ).
حياء كى فضيلت و اہميت كے باوجود يہ ايسا سبب نہيں ہونا چاہيے كہ اس كى بنا پر اسلام كا حكم ترك كر ديا جائے اور جس كى اسلام نے ترغيب دلائى ہے اس كو پس پشت ڈال ديا جائے؛ كيونكہ اگر حياء سے اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى كى معاونت ہوتى ہو تو يہ مطلوب ہے اور قابل تعريف ہوگى.
شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ درج ذيل آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
اور اللہ سبحانہ و تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا الاحزاب ( 54 ).
" شرعى حكم تو يہى ہے كہ اگر يہ سمجھا جاتا ہو كہ اس كو ترك كرنا ادب و حياء شمار ہو تو پھر يقينى اور تاكيدى چيز يہى ہے كہ شرعى حكم كى اتباع كى جائے، اور يہ يقين كر لينا چاہيے كہ اس كى مخالفت ميں كچھ بھى ادب نہيں " انتہى
ديكھيں: تيسير الكريم الرحمن ( 670 ).
بالكل شادى سے انحراف كرنا اور شادى كرانے ميں بےرغبتى ركھنا سنت كے خلاف ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ تين افراد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كے گھروں كے پاس آئے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عبادت كے متعلق دريافت كيا، جب انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عبادت كے متعلق بتايا گيا تو انہوں نے اسے كم سمجھا كہ ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقابلہ ميں كہاں!
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تو اگلے پچھلے سارے گناہ بخشے جا چكے ہيں!
ان ميں سے ايك نے كہا: ميں سارى رات نماز ہى ادا كرتا رہوں گا، اور دوسرا كہنے لگا: ميں سارى عمر روزے سے ہى رہوں گا اور كبھى روزہ نہيں چھوڑونگا، اور تيسرا كہنے لگا: ميں عورتوں سے عليحدہ رہوں گا اور كبھى شادى ہى نہيں كرونگا.
چنانچہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس آئے اور فرمايا:
" تم ہى وہ لوگ ہو جنہوں نے ايسى ايسى بات كى ہے، اللہ كى قسم ميں تم ميں سب سے زيادہ اللہ كا ڈر ركھتا ہوں، اور زيادہ تقوى ركھنے والا ہوں، ليكن ميں روزہ بھى ركھتا ہوں اور چھوڑتا بھى ہوں، اور ميں سوتا بھى ہوں اور رات كو نماز بھى ادا كرتا ہوں، اور ميں نے عورتوں سے شادى بھى كر ركھى ہے، جو كوئى بھى ميرے طريقہ سے بےرغبتى كرتا ہے وہ مجھ ميں سے نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5063 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1401 ).
اس ليے نكاح كرنا شرم و حياء كے منافى نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو سب لوگوں سے زيادہ شرم و حياء والے تھے ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى بھى كى.
اور سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضى اللہ تعالى عنہ كو تبتل اختيار كرنے ( يعنى عورتوں سے عليحدگى ) سے منع كر ديا تھا، اگر انہيں اجازت دى جاتى ہم اپنے آپ كو خصى كر ليتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5074 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1402 ).
اس ليے شہوت كو ختم كرنا جائز نہيں چاہے وہ آپريشن كے ذريعہ علاج كروا كے يا كسى اور طريقہ سے ہو.
الفواكہ الدوانى ميں درج ہے:
" اور اگر عورت بالكل مكمل طور پر ہميشہ كے ليے حيض ختم كرنے كے ليے دوائى استعمال كرے تو اس كے ليے ايسا كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس طرح نسل كشى ہوتى اور اسى طرح مرد كے ليے بھى ايسى ادويات استعمال كرنى جائز نہيں جس سے نسل ختم يا كم ہونے كا انديشہ ہو " انتہى
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 1 / 137 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا شہوت ختم كرنے اور خصى ہونے كے ليے آپريشن كروانا جائز ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" خصيتين كاٹنے اور ختم كرنے كا آپريشن كروانا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضى اللہ تعالى عنہ كو خصى ہونے سے منع فرما ديا تھا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 34 ).
اپنے آپ پر نكاح كو حرام كرنے والے شخص كے حكم كا بيان سوال نمبر ( 87998 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ ا سكا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اور آپ نے جو قسم اٹھائى ہے اس كے متعلق عرض يہ ہے كہ آپ نے سنت اور خير و بھلائى پر عمل نہ كرنے كى قسم اٹھائى ہے، اس ليے آپ سے يہى مطلوب ہے كہ آپ اس قسم كا كفارہ ادا كريں، اور جب بھى ميسر ہو شادى كر ليں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد الرحمن بن سمرہ رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:
" اور جب آپ كوئى قسم اٹھائيں اور آپ كو اس كے علاوہ كوئى اور كام بہتر لگے تو تم اپنى قسم كا كفارہ ادا كر كے بہتر كام كر لو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6722 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1652 ).
اور قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: يا تو ايك غلام آزاد كيا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے جو درميانے درجہ كا اپنے گھر والوں كو كھلاتے ہيں، يا پھر ان كا لباس ديا جائے، اور جو ايسا نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 45676 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كر ليں.
سوم:
اور شادى ترك كرنے كے حكم كے بارہ ميں گزارش يہ ہے كہ يہ حكم انسان كى مالى اور جسمانى طاقت مختلف ہونے كے اعتبار سے ہو گا، اور جتنى اس كو شادى كى ضرورت ہو اس كو ديكھا جائيگا، لہذا بعض اوقات تو شادى واجب ہو جاتى ہے، اور بعض اوقات مستحب اور بعض اوقات مكروہ.
اس ليے ہمارى تو آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ صبر سے كام ليں اور جلد بازى مت كريں كہ آپ آپريشن كروا ليں اور پھر شادى بالكل كر ہى نہ كر سكيں، كيونكہ عمر كا انسان پر بہت اثر پڑتا ہے، جتنا بڑا ہوتا جائے اس ميں تبديلى ہوتى جاتى ہے اور آپ كى شرم و حياء ميں بھى تبديلى ہو جائيگى.
كيونكہ عمر بڑى ہونے سے اس كى شدت ميں كمى پيدا ہو جائيگى اور عام حدود ميں آ جائيگى، اور آپ اللہ سے دعا بھى كريں كہ اس كى شدت ميں كمى ہو جائے، اور آپ كو سعادت مند شادى كى توفيق نصيب ہو، اور تجربہ كار افراد سے مشورہ كر كے بھى اس كا علاج كيا جا سكتا ہے ان كى نصيحت پر عمل كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا كرے اور ہر بھلائى كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات