داؤن لود کریں
0 / 0

خاوند زيادہ بچے نہيں چاہتا ليكن بيوى چاہتى ہے

سوال: 127170

اللہ نے اپنا احسان اور كرم كرتے ہوئے ہميں دو بچوں سے نوازا ہے، اور ميں تيسرا بچہ بھى چاہتى ہوں ليكن ميرا خاوند اس سے انكاركرتا اور كہتا ہے كہ يہ دور بہت مشكل ہے اور ہميں دو بچے ہى كافى ہيں، اس ليے وہ كنڈوم استعمال كرتا ہے تا كہ تيرا بچہ پيدا نہ ہو.

ميں جب بھى اس موضوع كے بارہ ميں بات كرتى ہوں تو خاوند مجھ پر ناراض ہوتا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميرے ليے اس حالت ميں خاوند كے ساتھ ہم بسترى كرنا جائز ہے يا نہيں ؟

اور كيا ميں اس سے طلاق طلب كر سكتى ہوں، يا كہ ميں اپنى رغبت ختم كر كے خاوند كى چاہت كو اختيار كرنا افضل ہو گا ؟

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

شريعت اسلاميہ نے كثرت اولاد كى ترغيب دلائى اورنبى كريم صلى اللہ عليہ نے اس پر ابھارا ہے، جيسا كہ ابو داود كى درج ذيل حديث ميںوارد ہوا ہے:

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگا:

مجھے ايك حسب و نسب اور جمال والى عورت كا رشتہملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے بچہ نہيں جن سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں ( تم اس سے شادى مت كرو ).

وہ شخص پھر دوبارہ بار نبى كريم صلى اللہ عليہوسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس عورت سے شادى كرنے سےمنع كر ديا، پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبتكرنے والى ہو، اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت كے ساتھ امتوںپر فخر كرونگا “

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانىرحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيحقرار ديا ہے.

اس ليے خاوند اور بيوى كو اولاد زيادہ پيدا كرنےكى حرص ركھنى چاہيے، اور اس سے انہيں خوشى حاصل ہونى چاہيے، اور وہ اپنے اوپر اللہتعالى كى اس نعمت كا دونوں كو شكر بجا لانا چاہيے.

دوم:

كسى مصلحت و سبب كى خاطر اولاد ميں كچھ عرصہ كاوقفہ كرنا جائز ہے، مثلا اگر عورت كمزور يا بيمار ہو، ليكن فقر و فاقہ يا اولاد كىتربيت كى خاطر اولاد پيدا نہ كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ اس ميں تو اللہ سبحانہ وتعالى كے ساتھ سوء ظن ہے.

رابطہ عالم اسلامى كے تابع اسلامى فقہ اكيڈمى كىقرار ميں درج ذيل فيصلہ درج ہے:

اسلامى فقہ اكيڈمى كا متفقہ فيصلہ ہے كہ مطلقاتحديد نسل جائز نہيں، اور فقر و فاقہ كے خدشہ و مقصد سے حمل روكنا جائز نہيں ہے،كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى روزى دينے والا اور بڑى قوت والا ہے، اور زمين ميںجتنى بھى جاندار اشياء ہيں ان كى روزى اللہ تعالى كے ذمہ ہيں، اسى طرح اگر كوئىاور ايسا سبب ہو جو شرعا معتبر نہيں تو بھى منع حمل جائز نہيں ہوگا.

ليكن اگر يقينى طور پر ضرر و نقصان ہوتا ہو جس كىبنا پر حمل سے منع كيا گيا ہو، يا پھر كسى ضرورت كى خاطر حمل ميں تاخير كى جائے،كہ عورت كو نارمل بچہ پيدا نہ ہوتا ہو بلكہ اس كے ليے آپريشن كرنا پڑے تو پھر كچھدير كے ليے حمل ميں تاخير كرنا جائز ہے، اس ميں كوئى مانع نہيں، اسى طرح دوسرےشرعى اسباب كى بنا پر بھى تاخير كى جا سكتى ہے ليكن اس كے ليے اسباب كى تعيين كوئىمسلمان قابل اعتماد اور ثقہ ڈاكٹر ہى كريگا.

بلكہ بعض اوقات تو بالكل مكمل طور پر حمل سے منعكيا جا سكتا ہے، ليكن يہ اس صورت ميں ہے جب ماں كى جان كو حمل كى بنا پر خطرہ پيداہو، اور يہ بھى مسلمان اور قابل اعتماد ڈاكٹر ہى طے كرينگے ” انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 200 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافتكيا گيا:

كيا معاشرے كے فساد اور اس معاشرہ ميں اولاد كىتعليم و تربيت پر كنٹرول نہ ہونے كى بنا پر كچھ عرصہ كے ليے حمل منظم كرنا يعنى ہربانچ برس كے بعد حمل ہونے كا فيصلہ كرنا صحيح ہے يا نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

” اس نيت سے حمل منظم كرنا جائز نہيں ہے،كيونكہ اس طرح تو وہ اس چيز ميں اللہ كے ساتھ سوء ظن ركھ رہا ہے جس كى نبى كريمصلى اللہ عليہ وسلم نے ترغيب ديتے ہوئے فرمايا ہے:

” ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنےوالى اور زيادہ اولاد پيدا كرنے والى ہو ….. “

ليكن اگر عورت كى حالت كى بنا پر حمل كو منظم كياجائے كہ وہ مسلسل حمل برداشت نہيں كر سكتى تو ہم كہيں گے كہ ايسا كرنا جائز ہے،اگرچہ اس حالت ميں بھى ايسا نہ كرنا افضل و اولى اور بہتر ہے ” انتہى

مزيد آپ سوال نمبر ( 7205 ) كے جواب كامطالعہ ضرور كريں.

سوم:

كنڈوماستعمال كرنا اور بيوى كے ساتھ عزل يعنى انزال رحم سے باہر كرنا اس شرط كے ساتھجائز ہے كہ بيوى اپنے خاوند كو ايسا كرنے كى اجازت دے، كيونكہ بيوى كو بھى استمتاعاور حصول اولاد كا حق حاصل ہے.

عزل كے جائز ہونے كى دليل يہ ہے كہ جابر بن عبداللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

” ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دورميں عزل كيا كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو عزل كى خبر ہوئى ليكن آپصلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں ايسا كرنے سے منع نہيں فرمايا “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5209 ) صحيح مسلمحديث نمبر ( 1440 ) مندرجہ بالا الفاظ مسلم كے ہيں.

اوپر بيان كردہ شرط كے بنا پر خاوند اپنى بيوى كىاجازت كے بغير عزل نہيں كر سكتا.

اور اگر خاوند اپنے موقف پر مصر ہو اور آپ اولادكى رغبت ركھتى ہوں تو خاوند غلطى پر ہے اور اسے ايسا نہيں كرنا چاہيے، ليكن اس كامعنى يہ نہيں كہ اس كے اس غلط عمل كى بنا پر آپ بھى غلطى كا ارتكاب كرتے ہوئے ہمبسترى نہ كريں، كيونكہ معصيت و نافرمانى كے مقابلہ ميں معصيت و نافرمانى نہيں كىجاتى.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہرسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جب خاوند اپنى بيوى كو اپنے بستر پر ہمبسترى كے ليے بلائے اور بيوى انكار كر دے اور خاوند اس پر ناراضگى كى حالت ميں راتبسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے اس عورت پر لعنت كرتے رہتے ہيں “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلمحديث نمبر ( 1736 ).

آپ پر جو حق مقرر كيا گيا ہے اس كى ادائيگى كريں،اور اپنا حق اللہ سبحانہ و تعالى سے مانگيں، اور صبر كر كے اجروثواب كى نيت ركھيں،اور خاوند كو وعظ و نصيحت كرتى رہيں، اور اس سے طلاق مت طلب كريں، بلكہ آپ اپنےگھر اور خاندان كى حفاظت كريں، اور اپنى اولاد كى تربيت كا اہتمام كرنے كے ساتھساتھ اللہ سبحان و تعالى سے نيك و صالح اولاد كا سوال كرتى رہيں، كيونكہ جب اللہسبحانہ و تعالى نے بچہ آپ كے مقدر ميں لكھ ديا تو پھر اسے نہ تو كوئى كنڈوم روكسكتا ہے، اور نہ ہى عزل وغيرہ.

امام احمد رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہسے روايت كيا ہے وہ عزل والى حديث ميں بيان كرتے ہيں كہ:

” ميں اپنى لونڈى كے ساتھ عزل كرتا اور اسسے ہم بسترى كرتا تو اس نے ايك عزل كے باوجود ايك بچہ جنم ديا چنانچہ رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اللہ تعالى جس نفس كو پيدا كرنا مقدر كردے تو وہ پيدا ہو كر رہےگا “

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںكہ ہميں لونڈياں حاصل ہوئيں تو ہم ان سے عزل كيا كرتے تھے، چنانچہ ہم نے رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم سے اس سلسلہ ميں دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلمنے فرمايا:

” كيا تم ايسا كيا كرتے ہو! نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے يہ بات تين بار دھرائى اور فرمايا: جو جان بھى قيامت تك پيداہونے والى ہے وہ پيدا ہو كر رہےگى “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5210 ) صحيح مسلمحديث نمبر ( 1438 ).

اللہ سبحانہ و تعالى سب كو ايسے اعمال كرنے كىتوفيق نصيب فرمائے جو اللہ كو پسند ہيں اور جن سے وہ راضى ہوتا ہے.

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android