سات ماہ ميں ميرے شوہر نے مجھے تين طلاقيں دى ہيں ليكن وہ شخص بہت ديندار ہے ليكن اس كے ساتھ ساتھ وہ متعصب بھى بہت ہے، اور اس گھر كى تباہى كے ہمارے پاس كوئى بڑے اسباب بھى نہيں، ہمارى زندگى بہت اچھى بسر ہو رہى تھى.
ليكن اختلاف كے وقت دين والا ہونے كے باوجود كچھ نہيں سوچتا، اب ميرى اور اس كى زندگى كا يہ سبق ہے اور ہم ايك دوسرے سے محبت بھى بہت كرتے ہيں، اور ہمارى خواہش ہے كہ اس سخت سبق كے بعد ہمارا آپس ميں رجوع ہو جائے.
ليكن ہم خوفزدہ بھى ہيں، اور دين كے معاملہ ميں حيلہ بازى سے كام نہيں لينا چاہتے، بعض علماء كرام نے ہميں فتوى ديا ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوئى ليكن ہم يقين كرنا چاہتے ہيں كہ واقع ايسا ہى ہے….
كيونكہ يہ طلاق جماع كے تقريبا دو گھنٹوں بعد ہوئى تھى اور پھر ميں اس جماع سے ابھى پاك بھى نہيں ہوئى تھى، ليكن خاوند نے غسل كر ليا تھا، اور اسے علم نہ تھا كہ ميں نے ابھى غسل كيا ہے يا نہيں، وہ اس وقت مجنون اور پاگل ہو چكا تھا اور جب اس نے مجھے طلاق دى تو مجھے مار بھى رہا تھا، ليكن اپنے ہوش و حواس ميں تھا اور جو كچھ كہہ رہا تھا اسے سمجھتا بھى تھا.
كچھ علما نے ہميں فتوى ديا ہے كہ يہ طلاق ساقط ہو جائيگى اس كى دليل سورۃ الطلاق كى پہلى آيت دى ہے كہ ناپاكى كى حالت ميں طلاق نہيں ہوتى.
ليكن كچھ علماء نے فتوى ديا ہے كہ يہ طلاق ہوگئى ہے اور مرد كو گناہ تو ہوگا ليكن طلاق ساقط نہيں ہوگى، برائے مہربانى ہميں يہ بتائيں كہ ہم كيا كريں، كيا بالفعل فقھاء كى آراء ميں اختلاف مسلمانوں كے ليے رحمت ہے، اور كيا ميں اللہ كى حدود سے تجاوز كيے بغير اپنے خاوند كے پاس واپس جا سكتى ہوں، جو بھى جواب ديں اس كو دليل كے ساتھ ضرور واضح كريں.
اس سے قبل بھى مجھے دو طلاقيں ہو چكى ہيں، پہلى طلاق تو اس وقت ہوئى جب ميں ابتدائى مہينوں ميں ہى اپنا حمل گنوا بيٹھى، ہمارى حالت بہت خراب تھى كيونكہ ميرے ليے حمل ہونے كا تناسب بہت ہى كم ہے.
اور دوسرى طلاق اس وقت ہوئى جب ميں حيض كے آخرى يوم ميں تھى اور تقريبا پاك ہونے والى تھى ليكن كسى حد تك اس طلاق ميں خاوند ٹھنڈا تھا، ہمارى نفسياتى حالت بہت خراب ہوچكى ہے، اور جو ہوا ہے ہم اس پر بہت زيادہ نادم ہيں، اور اللہ كو ناراض كيے بغير ہم آپس ميں رجوع كرنا چاہتے ہيں.
ہميں يہ بتائيں كہ اس حالت ميں دين كى رائے كيا ہے، اور اگر ہم علماء كى رائے پر عمل كريں كہ ہمارے ليےرجوع ہے تو كيا اس ميں گناہ ہوگا جيسا كہ كچھ دوسرے علماء كا كہنا ہے ؟
طہر ميں جماع كے بعد تيسرى طلاق دينا
سوال: 127339
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طلاق اس طہر ميں دينا مشروع ہے جس ميں بيوى سے جماع نہ كيا گيا ہو، يعنى بيوى كو حيض اور نفاس سے طاہر ہونے كى حالت ميں طلاق دى جائے اور اس طہر ميں جماع بھى نہ كيا گيا ہو.
ليكن حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر جس طہر ميں جماع كيا گيا ہو اس طہر ميں طلاق دينے كے مسئلہ ميں فقھاء كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور فقھاء كرام تو ان حالات ميں دى گئى طلاق كے واقع ہونے كے قائل ہيں.
ليكن بعض فقھاء كہتے ہيں يہ طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ يہ طلاق بدعى اور حرام ہے، اور اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب اپنى عورتوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ( دنوں كے ) آغاز ميں طلاق دو الطلاق ( 1 ).
آيت كا معنى يہ ہے كہ: وہ جماع كے بغير پاك ہوں، اس قول كو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ اور اہل علم كى ايك جماعت نے اختيار كيا ہے، اور ہمارى اس ويب سائٹ پر بھى يہى قول معتمد ہے.
مزيد آپ سوال نمبر (106328 ) اور (72417 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
جب آپ نے كسى ايسے عالم دين سےجس پر آپ كو اعتماد ہے اور اسے ثقہ سمجھتے ہيں سے فتوى ليا اور اس نے آپ كو تيسرى طلاق واقع نہ ہونے كا فتوى ديا كيونكہ وہ ايسے طہر ميں ہوئى جس ميں جماع كيا گيا تھا تو اس فتوى پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں اور آپ اپنے خاوند كے پاس جا سكتى ہيں ليكن آئيندہ طلاق كے الفاظ استعمال كرنے ميں اجتناب كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى پسند اور رضا والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات