ہمارے ملك ميں گورنمنٹ كچھ مساجد كو اعتكاف كے ليے مخصوص كرتى ہے، اور باقى مساجد كو اعتكاف كے ليے مخصوص نہيں كيا جاتا، كچھ لوگ ان مساجد ميں اعتكاف كرنا چاہتے ہيں، ميرا سوال يہ ہے كہ اگر ان مساجد كے ملازمين لوگوں كو اعتكاف كرنے كى اجازت دينے سے گنہگار تو نہيں ہونگے كہ انہوں نے حكمران كى نافرمانى كى ہے ؟
اور كيا وہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان ميں داخل ہوتے ہيں ؟
فرمان بارى تعالى ہے:
اور اس شخص سے زيادہ كون ظالم ہو سكتا ہے جو ان مساجد ميں اللہ كا ذكر كرنے سے روكتا ہے .
اور اگر وہ اس فعل سے گنہگار ہوتے ہوں تو پھر ولى الامر كى اطاعت كہاں گئى ؟
اور خاص كر جب دوسرى مساجد ايسى ہيں جہاں اعتكاف كرنے كى اجازت ہے، برائے مہربانى اس كے متعلق معلومات فراہم كر كے جزائے خير حاصل كريں.
سب مساجد كى بجائے كچھ مساجد كو اعتكاف كے ليے مخصوص كرنے كا حكم
سوال: 127373
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زمين ميں مساجد ہى سب سے قابل شرف جگہيں ہيں اور يہ اللہ كے گھر ہيں جو اللہ كى عبادت نماز كى ادائيگى اور قرآن مجيد كى تلاوت اور اللہ كے ذكر اور شرعى علم كى تعليم و تعلم اور اعتكاف كے ليے تعمير كيے گئے ہيں.
اسى كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يہ مساجد تو اللہ تعالى كے ذكر اور نماز اور قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے ہيں ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 285 ).
اس ليے ہر مسلمان شخص كو مساجد ميں داخل ہونے اور اللہ كى عبادت كرنے كا حق حاصل ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ يہ سب كچھ شرعى طريقہ كے مطابق ادا كيا جائے.
اس بنا پر جو شخص بھى كسى مسجد ميں اعتكاف كرنا چاہتا ہو تو اسے اعتكاف كرنے كا حق حاصل ہے اور كوئى بھى اسے منع نہيں كر سكتا، جو كوئى بھى اسے ايسا كرنے سے منع كرتا ہے خدشہ ہے كہ وہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں داخل ہوگا:
اور اس شخص سے زيادہ ظالم كون ہو سكتا ہے جو اللہ كى مساجد ميں اللہ كا ذكر كرنے سے روكے، اور مساجد كو برباد كرنے كى كوشش كرے، انہيں تو اس ميں اللہ سے ڈرتے ہوئے داخل ہونا چاہيے تھا، ان كے ليے دنيا و آخرت ميں عذاب عظيم ہے البقرۃ ( 114 ).
يعنى اس سے بڑھ كر ظالم كوئى نہيں ہو سكتا.
اس حرمت كى تاكيد اس بھى ہوتى ہے كہ جب يہ اعتكاف كرنے والے لوگ متبع السنت ہوں، اور لوگوں كو بدعات سے بچنے كى تلقين كرتے ہوں، اور زمين ميں فتنہ و فساد مچانے سے منع كرتے ہوں، اور انہيں مساجد ميں اعتكاف كرنے سے روك كر تنگ كا جائے.
اس حالت ميں جو كوئى بھى لوگوں مساجد ميں اعتكاف كرنے اور مساجد ميں رہ كر نماز كى ادائيگى اور تلاوت قرآن اور اللہ كا ذكر كرنے سے روكنے كى كوشش كرے تو وہ گنہگار ہے، اور وہ اس آيت كى وعيد ميں داخل ہے، اور جو اس ميں ان كى معاونت كرتا ہے وہ بھى اسى طرح اس ميں شامل ہوگا.
رہے مساجد كے ملازمين تو ان كے متعلق گزارش ہے كہ اگر يہ ملازمين مساجد ميں اعتكاف كرنے والوں كو روكنے والوں كے مقابلہ ميں كھڑے ہو سكتے ہيں اور اللہ كے ليے ان كا مقابلہ كر سكتے ہيں تو ان پر ايسا كرنا بہت ضرورى اور واجب ہے، انہيں ايسا ضرورى كرنا چاہيے اس كے علاوہ وہ كچھ نہ كريں.
اور اگر وہ ايسا نہيں كر سكتے تو انہيں اعتكاف كرنے والوں كے ساتھ نرمى اختيار كرنى چاہيے، اور وہ ان سے كہيں كہ وہ اعتكاف نہ كريں، كيونكہ اس ميں كوئى حكمت نہيں كہ انسان مسجد ميں اعتكاف كرے اور اس كے نتيجہ ميں اس كے مسلمان بھائى كو ضرر و نقصان پہنچے.
ہو سكتا ہے جن مساجد ميں اعتكاف كرنے كى اجازت دى گئى ہے اس ميں ان كا اعتكاف كرنا اس كے ليے بھى اور باقى مسلمانوں كے ليے بھى خير و بھلائى كا باعث ہو اور اس طرح وہ بہت زيادہ مسلمانوں كے ساتھ ميل جول كر سكتا ہے، اور اميد ہے كہ وہ اس طرح باقى مسلمانوں كى تعليم و تربيت اور انہيں احكام شريعت بتانے كا سبب بن سكےگا، يا پھر وہ كوئى شخص نصيحت حاصل كر سكےگا.
دوم:
بعض اوقات سب مساجد ميں اعتكاف كرنے سے منع كرنے كو قبول بھى كيا جا سكتا ہے كہ باقى مساجد چھوٹى ہيں اور وہ تنگ ہيں اس ليے وہاں اعتكاف كرنے سے نمازيوں كو تنگى اور تكليف ہوگى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب