ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” مشركوں كى مخالفت كرو، مونچھيں پست كرو، اور داڑھياں بڑھاؤ ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5892 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 601 ).
دارھى كى شرعى حد كيا ہے جس سے ہميں مونڈنا منع كيا گيا ہے ؟
ما هي حدود اللحية شرعاً ؟
سوال: 12740
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” رخساروں اور تھوڑى پر اگنے والے بالوں كو داڑھى كہا جاتا ہے جيسا كہ صاحب قاموس نے وضاحت كى ہے، لہذا رخساروں اور تھوڑى پر اگے ہوئے بالوں كو چھوڑنا واجب ہے، نہ تو انہيں كاٹا جائے اور نہ ہى مونڈا جائے.
اللہ تعالى سب مسلمانوں كے حال كى اصلاح فرمائے.
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 325 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” داڑھى كى حد جيسا كہ اہل لغت نے بيان كيا ہے: وہ چہرے اور دونوں جبڑوں اور رخساروں پر اگے ہوئے بال ہيں.
يعنى دوسرے معنوں ميں يہ كہ جو بال بھى رخساروں، اور جبڑے كى ہڈي اور تھوڑى پر ہيں وہ داڑھى ميں شامل ہں، اور ان بالوں ميں سے كوئى بال بھى كاٹنا معصيت و نافرمانى ميں شامل ہوتا ہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
” داڑھيوں كو معاف كر دو …. “
اور ايك حديث ميں فرمايا:
” داڑھيوں كو بڑھاؤ اور لمبا كرو اور لٹكاؤ ”
اور ايك روايت ميں فرمايا:
” داڑھيوں كو وافر كرو ”
اور ايك روايت ميں فرمايا:
” داڑھيوں كو پورا كرو ”
يہ سب اس كى دليل ہے كہ داڑھى ميں سے كچھ بھى كاٹنا جائز نہيں، ليكن معصيت و نافرمانى كے درجات ہيں، لہذا داڑھى منڈوانا داڑھى كٹوانے سے بڑى معصيت و نافرمانى ہے، كيونكہ يہ كاٹنے سے واضح اور بڑى مخالفت ہے. اھـ.
ديكھيں: فتاوى ھامۃ صفحہ نمبر ( 36 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (8196 ) كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات