ميرے خاوند نے قسم اٹھائى كہ اس كے چھوٹے بھائى كا نام سہيل ہو وگرنہ طلاق، اور اس كے باپ كى بيوى يہ نام نہيں ركھنا چاہتى، تو كيا اگر نام تبديل ہوا تو طلاق واقع ہو جائيگى يا علم ميں رہے كہ اس كا والد ابھى زندہ ہے ؟
قسم اٹھائى كہ اگر چھوٹے بھائى كا نام سہيل نہ ركھا تو باپ كى بيوى كو طلاق
سوال: 127814
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مولود كا نام ركھنا باپ كا حق ہے، اور اس ميں اسے اپنى بيوى سے مشورہ كرنا چاہيے، ليكن بيٹے كو اس ميں كوئى حق نہيں، اور اس كا طلاق كى قسم اٹھانا اپنے موجود باپ پر زيادتى شمار ہوگى.
ابن قيم رحمہ اللہ اپنى كتاب ” تحفۃ المودود باحكام المولود ” ميں لكھتے ہيں:
” پانچويں فصل: نام ركھنا باپ كا حق ہے نا كہ ماں كا، اس كے بارہ ميں لوگوں ميں كوئى اختلاف نہيں، اور جب ماں اور باپ بچے كا نام ركھنے ميں اختلاف كريں تو يہ حق باپ كو حاصل ہو گا ” انتہى
ديكھيں: تحفۃ المودود باحكام المولود ( 125 ).
دوم:
اس قسم اٹھانے والے كا مقصد جب اپنے باپ كى بيوى كو طلاق دينے كا ہو تو طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ وہ اس كى بيوى نہيں، كيونكہ طلاق تو خاوند كا حق ہے؛ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” طلاق تو اس كا حق ہے جس نے پنڈلى پكڑى ہے ”
يعنى خاوند، اسے ابن ماجہ نے حديث نمبر ( 2081 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 2041 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور اگر وہ اپنى بيوى كو طلاق دينا چاہتا تھا تو اس ميں تفصيل ہے:
اگر تو اس نے اپنى مرغوب چيز كو نافذ نہ كرنے كى صورت ميں طلاق كا قصد كيا تو اس كى بيوى كو ايك طلاق ہو جائيگى.
اور اگر اس كا اپنى بيوى كو طلاق دينا مقصد نہ تھا، بلكہ اس نے اپنے والد كى بيوى پر اس معاملہ كو سخت كرنے كہ وہ اس كى رغبت كے مطابق نام ركھے كا مقصد تھا ـ جيسا كہ اس طرح كى حالت ميں غالبا ہوتا ہے ـ
اور جب اس كى رغبت كے مطابق نام نہ ركھا جائے تو اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہو گا، اس طرح وہ دس مسكينوں كو كھانا كھلائيگا، يا پھر دس مسكينوں كو لباس مہيا كريگا، يا پھر ايك غلام آزاد كريگا، اور اگر يہ نہ پائے تو تين روزے ركھےگا.
مزيد آپ سوال نمبر (82780 ) اور (105912 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
طلاق كى قسم اٹھانے سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كے نتيجہ ميں خاندان كا شيرازہ بكھر جائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات