نماز عيد سے قبل لوگ اجتماعى طور پر تكبيريں كہتےہيں كيا يہ بدعت ہے يا نماز عيد ميں مشروع ہے ؟
اور اگر بدعت شمار ہوتى ہے تو كيا نمازى نماز شروع ہونے تك عيد گاہ سے نكل جائے ؟
نماز عيد سے قبل اجتماعى تكبير كا حكم
سوال: 127851
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عيد ميں تكبيريں كہنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مسنون و مشروع ہيں، اور يہ بھى باقى عبادات كى طرح ايك عبادت ہے، اس ليے اس كے متعلق سنت ميں وارد شدہ پر ہى انحصار و اقتصار كرنا ضرورى ہے، اور اس كى كيفيت ميں كسى بھى قسم كا نيا طريقہ ايجاد كرنا جائز نہيں، بلكہ جو سنت نبويہ اور آثار سے ثابت و وارد ہے وہى كافى ہے.
آج كل اجتماعى طور پر جو تكبيريں كہى جاتى ہيں اس كے متعلق ہمارے فقھاء نے غور و فكر كيا ہے ليكن انہيں اس كى تائيد ميں كوئى دليل نہيں ملى چنانچہ انہوں نے اس كے بدعت ہونے كا فتوى جارى كيا ہے، كيونكہ اصل عبادت ميں كوئى چيز نئى ايجاد كى جائے چاہے وہ اس كى كيفيت ميں ہو يا صفت و طريقہ ميں تو وہ مذموم بدعت ميں شمار ہوتى ہے، اور وہ درج ذيل فرمان نبوى ميں شامل ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عيد كے روز مسجد حرام ميں جو تكبيريں كہى جاتى ہيں كہ ايك يا اس سے زائد شخص زمزم كى چھت پر بيٹھ كر تكبيريں كہتے ہيں اور لوگ ان كا جواب ديتے ہيں، شيخ عبد العزيز بن باز نے كھڑے ہو كر اس كيفيت كا انكار كيا اور انہيں روكا اور كہا كہ يہ بدعت ہے.
شيخ كا مقصد يہ تھا كہ اس خاص شكل كے ساتھ منسوب ہونے كے اعتبار سے يہ بدعت ہے، ان كا مقصد يہ نہيں كہ يہ تكبير ہى بدعت ہے، چنانچہ مكہ كے كچھ لوگوں كو يہ بات اچھى نہ لگى كيونكہ وہ اس سے مانوس ہو چكے ہيں، اور اس ٹيلى گرام كے ارسال كرنے كى يہى حد ہے، اس طرح تكبيريں كہنے كى كيفيت كے متعلق تو مجھے بھى كوئى علم نہيں كہ يہ صحيح ہو، اس ليے اس كے شرعى ہونے كے ليے كوئى دليل و برہان ہونى چاہيے، اور اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ يہ مسئلہ جزئى ہے اس كو اتنا نہيں اچھالنا چاہيے اور وہاں تك نہيں پہنچنا چاہيے جہاں تك پہنچ چكا ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى العلامۃ محمد بن ابراہيم ( 3 / 127 – 128 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" الحمد للہ رب العالمين و الصلاۃ والسلام على نبينا محمد و آلہ و اصحابہ اجمعين و بعد:
سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں اور درود و سلام ہوں ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر.
اما بعد:
كچھ مقامى اخبارات ميں محترم بھائى جناب شيخ احمد بن محمد جمال ـ وفقہ اللہ ـ كا نشر كردہ مضمون ميں نے پڑھا ہے جس ميں انہوں نے نماز عيد سے قبل مساجد ميں اجتماعى طور پر تكبيريں كہنے سے منع كرنے اور اس كے بدعت ہونے كے فتوى پر بہت تعجب كا اظہار كيا ہے، جناب نے مذكورہ كالم ميں يہ ثابت كرنے كى كوشش كى ہے كہ يہ بدعت نہيں اور اس سے روكنا جائز نہيں، اور بعض دوسرے كالم نگاروں نے بھى اس كى تائيد كى ہے؛ اس خدشہ كے پيش نظر كہ كے جسے حقيقت معلوم نہيں اس پر كہيں يہ مسئلہ خلط ملط ہى نہ ہو جائے ہم يہ وضاحت كرنا چاہتے ہيں كہ:
عيد الفطر ميں عيد كى رات اور نماز عيد سے قبل اور عشرہ ذوالحجہ اور ايام تشريق كے ان عظيم اوقات ميں تكبيريں كہنا اصلاً مشروع ہيں، اور اس ميں بہت زيادہ فضيلت پائى جاتى ہے كيونكہ عيد الفطر كى تكبيرات ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تا كہ تم گنتى پورى كرلو اور اس كى دى ہوئى ہدايت پر اس كى بڑائياں بيان كرو اور تا كہ اس كا شكر كرو البقرۃ ( 185 ).
اور عشرہ ذوالحجہ اور ايام تشريق كے بارہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تا كہ اپنے فائدے حاصل كريں اور ان مقررہ دنوں ميں اللہ كا نام ياد كريں ان چوپايوں پر جو پالتو ہيں الحج ( 28 ).
اور اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اور تم گنے چنے چند ايام ميں اللہ كا ذكر كرو البقرۃ ( 203 ).
ان معلوم و معدود ايام ميں مشروع ذكر ميں مطلق اور مقيد تكبيرات بھى شامل ہيں جيسا كہ سنت مطہرہ اور سلف كے عمل سے ثابت ہے، اور تكبير كہنے كا طريقہ يہ ہے كہ ہر مسلمان شخص اكيلا بلند آواز سے تكبير كہے حتى كہ لوگ بھى سنيں اور اس كى اقتدا كريں اور وہ انہيں تكبيريں كہنا ياد دلائے، ليكن اجتماعى طور پر تكبيريں كہنا بدعت ہے وہ اس طرح كہ دو يا دو سے زيادہ افراد بلند آواز سے اكٹھے تكبيريں كہيں سب اكٹھے ہى تكبير كہنا شروع ہوں اور اكٹھے ہي بيك آواز ميں ختم كريں يہ بدعت ہے اور خاص طريقہ ہے.
اور اس عمل كى كوئى اصل نہيں اور نہ ہى كوئى دليل ملتى ہے، اور يہ تكبير كے طريقہ اور صفت ميں بدعت ہے اللہ نے اس كى كوئى دليل نہيں اتارى، لہذا جو كوئى بھى اس طريقہ سے تكبيريں كہنے سے روكتا ہے وہ حق پر ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ رد ہے " صحيح مسلم.
يعنى وہ عمل مردود اور غير مشروع ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" اور تم نئے نئے امور ايجاد كرنے سے بچو كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اجتماعى طور پر تكبيريں كہنا دين ميں نيا كام چنانچہ يہ بدعت ہوا، اور جب لوگوں كا عمل شريعت مطہرہ كے مخالف ہو تو اس سے منع كرنا واجب ہے؛ كيونكہ عبادات توقيفى ہيں يعنى جس طرح ثابت ہيں اسى طرح سرانجام دى جائينگى اور اس ميں وہى مشروع ہو گا جو كتاب و سنت سے ثابت ہے.
رہے لوگوں كے اقوال اور آراء جب شرعى دلائل كے خلاف ہوں تو ان ميں كوئى دليل نہيں، اور اسى طرح مصالح المرسلہ سے بھى عبادات ثابت نہيں ہو سكتى، بلكہ عبادت تو صرف كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم يا قطعى اجماع سے ثابت ہو گى.
اور مشروع تو يہى ہے كہ ہر مسلمان شخص مشروع طريقہ سے كہے جو شرعى دلائل كے ساتھ ثابت ہيں، اور وہ انفرادى طور پر تكبير كہنا ہے.
سعودى عرب كے مفتى اعظم جناب شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ نے بھى اجتماعى طور پر تكبيريں كہنے كا انكار كرتے ہوئے اس ميں ايك فتوى بھى جارى كيا ہے، اور ميں نے بھى اس كى ممانعت ميں ايك سے زائد فتوے جارى كيے ہيں، اور اسى طرح مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب سے بھى اس كى ممانعت ميں فتوى جارى ہو چكا ہے.
اور شيخ حمود بن عبد اللہ التويجرى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك قيمتى رسالہ بھى تاليف كيا ہے جس ميں انہوں نے اس سے منع كيا اور روكا ہے، يہ رسالہ طبع ہو چكا ہے اور ماركيٹ ميں موجود ہے، اس ميں اجتماعى طور پر تكبيريں منع ہونے كے كافى و شافى دلائل ہيں.
اور محترم بھائى شيخ احمد نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل سے جو انہوں نے منى ميں لوگوں كى موجودگى ميں كيا سے جو دليل پكڑى ہے اس ميں دليل نہيں پائى جاتى كيونكہ ان كا اور لوگوں كا منى ميں يہ عمل كرنا اجتماعى تكبير ميں شامل نہيں ہوتا، بلكہ يہ تو مشروع تكبير تھا؛ كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سنت پر عمل كرتے ہوئے اور لوگوں كو ياد دلانے كے ليے بلند آواز سے تكبير كہہ رہے تھے، اور ہر شخص اپنے طور پر تكبير كہہ رہا تھا، اور ابن عمر اور لوگوں ميں كوئى اتفاق نہ تھا كہ وہ شروع سے لے كر آخر تك بيك آواز ميں تكبير كہيں، جيسا كہ آج كل اجتماعى طور پر تكبيريں كہنے والے كرتے ہيں.
اور اسى طرح سلف رحمہ اللہ سے جو بھى تكبير كے متعلق مروى ہے وہ سب شرعى طريقہ پر ہے، اور جو كوئى بھى اس كے خلاف گمان كرتا ہے اسے اس كى دليل دينى چاہيے، اور اسى طرح نماز عيد يا نماز تراويح يا قيام الليل يا وتر كى آواز لگانا يہ سب بدعت ہے اس كى كوئى اصل نہيں ملتى، اور صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نماز عيد بغير آذان اور اقامت كے ادا فرمايا كرتے تھے، اور ہمارے علم كے مطابق تو كسى بھى اہل علم نے يہ نہيں كہا كہ آواز لگانا ( سنت ميں وارد ہے ) يا كوئى اور الفاظ كہنے.
اور جو كوئى بھى يہ خيال كرے اس كى اسے دليل دينا ہو گى، اور اصل ميں يہى ہے كہ يہ موجود نہيں، اس ليے كتاب و سنت صحيح يا اہل علم كے اجماع كى دليل كے بغير كسى كے ليے بھى كوئى عبادت مشروع كرنا جائز نہيں، كيونكہ بدعات سے بچنے والے عمومى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں.
اور ان ميں يہ فرمان بارى تعالى بھى شامل ہوتا ہے:
كيا ان لوگوں نے ايسے شريك مقرر كر ركھے ہيں جو ان كے ليے ايسے احكام دين مقرر كرتے ہيں جو اللہ كے فرمائے ہوئے نہيں الشورى ( 21 ).
اور ان دلائل ميں سابقہ دو احاديث بھى شامل ہيں جو يہاں شروع ميں بيان كى گئى ہے، اور اس ميں يہ فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم بھى شامل ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے " متفق عليہ.
اور خطبہ جمعہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ ارشاد فرمايا كرتے تھے:
" اما بعد: يقينا سب سے اچھى بات اللہ كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اسے صحيح مسلم نے روايت كيا ہے، اور اس موضوع ميں احاديث بہت زيادہ پائى جاتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور جناب محترم فضيلۃ الشيخ احمد اور ہمارے سب بھائيوں كى دين كى سمجھ اور دين پر ثابت قدم ركھے، اور ہميں اور سب دين كے داعيوں كو ہدايت و راہنمائى اور حق كے معاون و مددگار بنائے، اور ہميں اور سب مسلمانوں كو ہر اس كام سے اجتناب كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جو شريعت كے مخالف ہيں، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى بڑا ہى كرم و الا اور جود والا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 13 / 20 – 23 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" ہر ايك شخص اكيلا بلند آواز سے تكبير كہے، كيونكہ اجتماعى طور پر تكبيريں كہنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا كام كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ مردود ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 310 ).
اور يہ فتوى بھى ہے:
" اجتماعى طور پر بيك آواز ميں تكبيريں كہنا مشروع نہيں، بلكہ يہ بدعت ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا نيا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
اور پھر سلف صالح ميں سے بھى كسى نہ يہ عمل نہيں كيا نہ تو صحابہ كرام ميں سے كسى نے اور نہ ہى تابعين اور تبع تابعين ميں سے كسى نے، حالانكہ وہ لوگ قدوہ ہيں، اور اتباع واجب ہے نہ كہ ابتداع يعنى بدعات كى ايجاد " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 311 ).
اور يہ فتوى بھى ہے:
" اجتماعى طور پر تكبيريں كہنا بدعت ہے؛ كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو عمل كيا اس ميں اجتماعى تكبيريں كہنے كى كوئى دليل نہيں، بلكہ اس ميں تو يہ ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ اكيلے خود تكبيريں كہتے تھے اور جب لوگ انہيں تكبيريں كہتے ہوئے سنتے تو وہ بھى تكبيريں كہنے لگتے، اور ہر ايك اكيلا ہى تكبير كہتا تھا، اس ميں يہ نہيں ہے كہ وہ سب بيك زبان ايك ہى آواز ميں اجتماعى طور پر تكبيريں كہتے تھے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 269 ).
اور يہ فتوى بھى ہے:
" نماز كے بعد يا نماز كے وقت كے علاوہ بيك آواز ميں اجتماعى طور پر تكبيريں كہنا مشروع نہيں، بلكہ يہ بدعت اور دين ميں نئى ايجاد كردہ ہے، بلكہ مشروع تو يہ ہے كہ اللہ كا ذكر كثرت سے كيا جائے اور اجتماعى آواز كے بغير سبحان اللہ اللہ اكبر الحمد للہ كہا جائے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے، اور كثرت سے استغفار كيا جائے تا كہ اللہ سبحانہ تعالى كے اس فرمان پر عمل ہو:
اے ايمان والو اللہ كا ذكر كثرت سے كرو، اور صبح و شام اس كى تسبيح بيان كرو .
اور يہ فرمان بارى تعالى بھى ہے:
تم مجھے ياد كرو ميں تمہيں ياد كرونگا .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر عمل كرتے ہوئے جس ميں انہوں نے رغبت دلاتے ہوئے فرمايا:
" ميرے ليے سبحان اللہ اور الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر كہنا دنيا ميں سورج طلوع ہونے سے زيادہ محبوب ہے " رواہ مسلم.
اور آپ كا يہ بھى فرمان ہے:
" جس نے سو بار سبحان اللہ و بحمدہ كہا اس كے گناہ بخش ديے جائنگے چاہے وہ سمندر كى جھاگ كے برابر ہوں " اسے مسلم اور ترمذى نے روايت كيا ہے اور يہ لفظ ترمذى كے ہيں.
اور اس امت كے سلف كى اتباع كرتے ہوئے كيونكہ ان سے يہ ثابت نہيں كہ انہوں نے اجتماعى طور پر تكبيريں كہى ہوں بلكہ يہ تو بدعتى لوگ اور خواہش كے پيچھے چلنے والوں كا عمل ہے.
اور اس ليے بھى كہ ذكر ايك عبادت ہے، اور عبادات ميں اصل توقيف ہے اسى طرح كى جائيگى جس طرح شارع نے حكم ديا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين ميں بدعات كى ايجاد سے بچنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام نكالا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 2 / 236 ) المجموعۃ الثانيۃ.
مزيد آپ سوال نمبر ( 105644 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات