اگر كوئى مسلمان شخص نماز تراويح شروع كر دے تو كيا اس كے ليے اسے مكمل كرنا ضرورى ہے يا كہ جتنى چاہے ادا كر كےجا سكتا ہے ؟
کیا نماز تراويح شروع كرنے پر تكميل ضرورى ہے؟
سوال: 128165
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” بلاشك و شبہ نماز تراويح سنت اور نفلى نماز اور رمضان المبارك كا قيال الليل ہے، اور اسى طرح تہجد كى نماز بھى، اور ايسے ہى چاشت كى نماز اور فرضى نمازوں كے ساتھ سنت مؤكدہ بھى، اور يہ نفل بھى ہيں اگر چاہے تو ادا كرے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے ليكن ان كى ادائيگى افضل و بہتر ہے.
اگر وہ امام كے ساتھ نماز تراويح شروع كرتا ہے اور سارى تراويح مكمل كرنے سے قبل جانا چاہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن امام كے ساتھ ادا كرنے حتى كہ امام تروايح مكمل كر لے افضل و اولى ہے، اور ايسا كرنے پر اس كے ليے سارى رات كے قيام كا اجروثواب لكھا جائيگا.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس نے امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے رات كےقيام كا اجروثواب لكھا جاتا ہے “
لہذا جب وہ امام كے ساتھ سارى تراويح ادا كرنے تك رہے تو سارى رات كے اجروثواب كى فضيلت حاصل ہوگى، اور اگر وہ كچھ ركعات ادا كركے چلا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ يہ نفلى نماز ہے ” انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.
ماخذ:
فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب