0 / 0
27,04311/10/2014

ابراہیم علیہ السلام کی ملتِ حنیف اسلام ہی ہے

سوال: 128172

سوال: ابراہیم علیہ السلام کا دین “حنیف” ہے، “حنیف” کے کیا معنی ہیں، اور کیا اس وقت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر کوئی قائم ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

قرآن کریم کی متعدد آیات میں دین حنیف کا ذکر ہے، اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر اسی دین کے ساتھ متصف کرتے ہوئے کیا ہے، چنانچہ جو شخص ان آیات کو پڑھے تو بآسانی “دین حنیف”کا معنی سمجھ سکتا ہے، اس لئے ہم ان تمام آیات کو اپنے اس جواب میں ذکر کریں گے تا کہ آیات کے سیاق سے قارئین کرام کو اسکا معنی سمجھنے میں آسانی ہو:

چنانچہ سورہ بقرہ میں فرمانِ باری تعالی ہے:

( وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ ”یہودی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے” اور عیسائی کہتے ہیں کہ ”عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔” آپ ان سے کہیے : [بات یوں نہیں] بلکہ جو شخص ملت ابراہیم [دين حنيف]پر ہوگا وہ ہی ہدایت پائے گا اور ابراہیم موحد تھے شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ البقرة/135.

اور سورہ آل عمران میں فرمایا:

( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ . هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ . مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ) ”

ترجمہ: اے اہل کتاب! تم کیوں ابراہیم کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو (کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی) حالانکہ تورات اور انجیل تو نازل ہی ان کے بعد ہوئی تھیں! کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے؟[65] تم وہ لوگ ہو جو ان باتوں میں جھگڑا کرچکے ہو جن کا تمہیں کچھ علم تھا مگر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں، ان کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے، تم نہیں جانتے [67] ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی، بلکہ سب سے ہٹ کر اللہ ہی کا حکم ماننے والے تھے، اور وہ مشرک بھی نہیں تھے؟ آل عمران/65-68.

سورہ آلِ عمران ہی میں ایک اور جگہ فرمایا:

( قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ)

ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ اللہ نے (جو کچھ فرمایا ہے) سچ فرمایا ہے لہذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرنا چاہیے جو ہر باطل سے منہ موڑ کر اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ آل عمران/95.

سورہ نساء میں فرمایا:

( وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا)

ترجمہ: اور اس شخص سے کس کا دین بہتر ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کردیا ہو، وہ نیکو کار بھی ہو اور یکسو ہوجانے والے ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کر رہا ہو، اس ابراہیم کی جسے اللہ نے اپنا مخلص دوست بنالیا تھا۔ النساء/125.

سورہ انعام میں فرمایا:

( فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ . إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ)

ترجمہ: پھر جب سورج کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بولے: یہ میرا رب ہے؟ یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: اے میری قوم! جن (سیاروں کو) تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں[78] میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔ الأنعام/78-79.

سورہ انعام ہی میں ایک اور جگہ فرمایا:

( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ)

ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ:میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ دکھا دی ہے یہی وہ مستحکم دین ہے جو ابراہیم حنیف کا طرزِ زندگی تھا اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے [161] آپ ان سے کہئے کہ:میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے [١62] جس کا کوئی شریک نہیں ۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں سب سے پہلے اللہ کا فرمانبردار بنتا ہوں۔ الأنعام/161-163.

سورہ نحل میں فرمایا:

( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ . وَآَتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآَخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ . ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )

ترجمہ: بلاشبہ! ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے۔ اللہ کے فرمانبردار اور یکسو رہنے والے تھے۔ وہ ہرگز مشرک نہ تھے[١٢0] وہ اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار تھے اللہ نے انھیں منتخب کر لیا اور سیدھی راہ دکھادی [١٢1] ہم نے انھیں دنیامیں بھی بھلائی عطا کی اور آخرت میں تو وہ یقینا صالحین میں سے ہوں گے [١٢2] پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو اور وہ مشرک نہ تھے۔ النحل/121-123

چنانچہ جو شخص مذکورہ بالا آیات میں غور و فکر کرے تو اسے ابراہیم علیہ السلام کے “دین حنیف” کا معنی سمجھ آجائے گا، جو کہ اللہ تعالی کی وحدانیت ، سب کچھ اللہ کے لئے فرمانبردار، کفر و شرک سے بیزار، اور غیر اللہ کی عبادت سے دستبردار ہونے کا نام ہے، اور یہی تمام انبیائے کرام کا دین اور رسولوں کا عقیدہ تھا، یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام عقائد کے بارے میں متحد تھے، اور صرف فقہی مسائل میں احکامات مختلف تھے۔

چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

“حنیفاً” کا مطلب ہے کہ ناپسندیدہ ادیان سے دور، اور ابراہیم علیہ السلام کے دینِ حق کے قریب؛ اور “حنیفاً” ترکیب کے اعتبار سے حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے؛ جیسے کہ زجاج نے بیان کیا ہے۔

تو مطلب یہ ہوا کہ : ہم ایسی حالت میں ملتِ ابراہیم کی اتباع کرتے ہیں۔

اور ابراہیم علیہ السلام کو “حنیف” اسی لئے کہا گیا کہ آپ دینِ الہی یعنی اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔

اور “حنف” عربی زبان میں میلان کو کہتے ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے، “رِجل حُنفاء” یا “رَجُل أَحنف” یعنی وہ شخص جسکےدونوں قدم انگلیوں کی طرف سے ایک دوسرے کی طرف مڑے ہوئے ہوں، شاعرہ ام احنف کہتی ہے:

واللَّهِ لولا حَنَفٌ بِرجْلِه … ما كان في فِتيانكم مِن مِثلِه

یعنی: اللہ کی قسم !اگر اسکے پاؤں میں ٹیڑھ پن نہ ہوتا ، تو تمہارے بچوں میں اس جیسا کوئی نہیں تھا۔

اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا:

إذا حوّل الظّل العشيّ رأيتَه … حَنِيفاً وفي قَرْن الضحى يَتنصّرُ

مطلب یہ ہے کہ: گرگٹ شام کے وقت قبلہ کی جانب منہ کرتا ہے، جبکہ صبح کے وقت مشرق کی طرف منہ رکھ کر عیسائی بن جاتا ہے، کیونکہ عیسائیوں کا قبلہ مشرق ہے۔

جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ “حَنَف” کا مطلب استقامت ہے؛ تو دین ابراہیم کو حنیف اس لئے کہا گیا کہ یہ مستقیم دین ہے۔ انتہی

ماخوذ از: ” الجامع لأحكام القرآن ” (1/358)

اور علامہ السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“حنیف کا مطلب وہ شخص ہے جو صرف اللہ کی طرف متوجہ، غیر اللہ سے یکسر اجتناب، توحید پر کاربند، شرک سے بالکل بیزار ہو ایسا شخص قابل اتباع ہوگا، جبکہ اس شخص کے منہج سے اختلاف کفر اور گمراہی شمار ہوگا” انتہی

” تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان ” (ص/67)

اسی طرح علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ:

“[حنیف] سے مذہبی میلان مراد ہے، کیونکہ جو شخص چلتے ہوئے مائل ہو جائے تو عام طور پر راستے سے ہٹ جاتا ہے، چنانچہ میلان کی یہ قسم ملت ابراہیمی کیلئے اچھی صفت ہے، کیونکہ جس وقت ملت ابراہیمی کا ظہور ہوا تو لوگ اندھیر نگری میں تھے، جبکہ ملتِ ابراہیم اس اندھیر نگری سے ہٹ کر تھی، اور اسی وجہ سے اسے “حنیف” کا لقب دیا گیا، پھر اغلبیت کی بنا پر حنیف بطورِ لقب برائے مدح سرائی کے استعمال ہونے لگا، اور یہ آیت[سورہ بقرہ کی آیت 135 ]اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ دینِ اسلام ابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر ہے”انتہی

” التحرير والتنوير ” (1/717)

اسی طرح ابن عاشور رحمہ اللہ ایک اور جگہ کہتے ہیں:

“فرمانِ باری تعالی: ( وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفاً مُسْلِماً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )ترجمہ: “لیکن [ابراہیم] دیگر ادیان سے بیزار، مسلمان تھے، اور مشرکوں میں سے نہیں تھے” ان الفاظ سے غیر اسلامی مذاہب کی نفی کے بعد استدراک مقصود ہے، تا کہ ابراہیم علیہ السلام کی حالت اسلامی ضوابط کے دائرے میں رہے، اسی لئے “حنیف”کا مطلب “مسلم” سے بیان کیا، کیونکہ آپکی قوم “حنیف” کا معنی جانتی تھی، اور اسلام پر ایمان نہیں لاتے تھے، تو انہیں بتلایا کہ اسلام ہی دینِ حنیف ہے، اور (وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) کہہ کر ابراہیم علیہ السلام کی یہودیت، نصرانیت، اور مشرکوں سے موافقت کی نفی کی اور یہ بتلایا کہ آپ صرف مسلمان تھے، چنانچہ اس سے آپ علیہ السلام کی اسلام کے ساتھ مکمل یکسانیت ثابت ہوگئی۔

اس سے پہلے سورہ بقرہ میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی کہ انہیں مسلمان بنادے، پھر اللہ تعالی نے بھی ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ مسلمان اور حنیف بن جائیں، اور جو اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، وہی ابراہیم علیہ السلام لیکر آئے تھے، جیسے کہ اس آیت میں فرمایا: ( وَقَالُوا كُونُوا هُوداً أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إبراهيم حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )ترجمہ: “انہوں نے کہا: یہودی یا عیسائی بن جاؤ ہدایت یافتہ ہوجاؤ گے، آپ کہہ دیں: بلکہ ملت ابراہیمی اپناؤ جو کہ دین حنیف ہے، اور ابراہیم مشرک نہیں تھے” مذکورہ بالا پوری وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا شک و شبہ ابراہیم علیہ السلام کا دین اسلام ہی تھا۔

چنانچہ ابراہیم علیہ السلام عقیدہ توحید لیکر آئے، اور اعلانیہ طور پر توحید کا اتنا پرچار کیا کہ غافل لوگوں تک شرک سرائیت کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی، ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی شکل میں قبلہ تعمیر کیا، جو کہ لوگوں کیلئے بنایا جانیوالا سب سے پہلا گھر تھا، پھر اسکے مقصد کو پورا کرنے کیلئے لوگوں پر اسکا حج فرض کیا ، اور یہ کہتے ہوئے کامل عبادات اللہ کیلئے خاص کرنے کا اعلان کیا: ( وَلا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئاً)میں تمہارے بنائے ہوئے اللہ کے شریکوں سے ڈرتا نہیں ہوں، ہاں اگر اللہ کچھ چاہے۔ الأنعام/80 ابراہیم علیہ السلام نے قول و فعل اللہ کیلئے خالص کردئے تھے اسی لئے کہا: ( وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً )میں تمہارے شرکاء سے کیوں ڈروں؟ حالانکہ تم نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں، جن کے بارے میں کوئی برہان اللہ تعالی نے نازل نہیں فرمائی۔ الأنعام/81 اتنی بات پر ہی بس نہیں بلکہ پھر بھی اللہ تعالی سے ہدایت کے طلبگار رہے، اور دعا کی: ( رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ )یا اللہ! ہمیں اپنا فرما بردار بنا۔البقرة/128 اسکے بعد سورہ انبیاء کی آیت : 58 کے مطابق اپنے ہاتھوں سے بتوں کو پاش پاش کیا، اور یہ کہتے ہوئے صرف اللہ پر اپنا اعتماد ظاہر کیاکہ :( الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ[78]وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ[79] وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ[80] وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ )ترجمہ: اسی نے مجھے پیدا کیا ہے وہی مجھے ہدایت بھی دیگا[78] وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے [79] اور جب میں بیمار ہوجاؤں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے[80]اور وہی مجھے موت دیکر دوبارہ زندہ کریگا۔ الشعراء/78- 81، پھر وحدانیت الہی کیلئے دلائل کے ساتھ مناظرے کئے اور کہا: ( فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ ) بیشک اللہ تعالی سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، [اگر توں بھی رب ہے تو]توں سورج کو مغرب سے نکال کردکھا۔ البقرة/258، انہی دلائل کے بارے میں اللہ تعالی نے بھی ذکر کیا اور فرمایا: ( وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إبراهيم عَلَى قَوْمِه ) یہ دلیل ہم نے ابراہیم کو اپنی قوم کے خلاف عطا کی تھی۔ الأنعام/83کیونکہ سورہ انعام کی آیت: 80 کیمطابق آپ کی قوم نے آپ سے مناظرہ کیا تھا” انتہی

” التحرير والتنوير ” (3/122-123)

اس بات کی تاکید کہ دین حنیف سے مراد اسلام ہی ہے؛دیگر آیات سے بھی ہوتی ہے جن میں تمام مسلمانوں کو توحید عبادت کا حکم دیا گیا ہے کہ شرک سے بیزار رہیں اور موحد بن کر زندگی گزاریں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:

( قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [104] وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [105] وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ )آپ ان سے کہئے: لوگو! اگر میرے دین کے بارے میں تمہیں شک ہے تو میں ان کی عبادت نہ کروں گا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر کر رہے ہو ، میں تو اسی اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں وفات دیتا ہے، اور مجھے یہی حکم ہوا کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوجاؤں[١04] نیز یہ کہ آپ یکسو ہو کر اسی دین حنیف (اسلام) کی طرف اپنا رخ قائم رکھئے اور مشرکوں سے نہ ہونا [١05] اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقینا ظالموں سے ہوجائیں گے۔ يونس/104-106

اسی طرح فرمانِ باری تعالی:

( فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ) لہذا [اے نبی!] یکسو ہو کر اپنا رخ دین حنیف پر مرتکز کر دو ۔ یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی اس خلقت میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا یہی درست دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔الروم/30

یہی وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتلا دیا کہ انہیں دینِ حنیف دیکر بھیجا گیا ہے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے واضح یکسو دین [حنیف ] کیساتھ بھیجا گیا)

اسے أحمد نے مسند (24334) میں روایت کیا ہے اور البانی نے الصحيحۃ (1829) میں اسے صحیح قرار دیا ہے جبکہ مسند احمد کے محققین نے اسے حسن کہا ہے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلایا کہ یہی اللہ کے ہاں محبوب ترین راستہ ہے: چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: اللہ کے ہاں کونسا دین محبوب ترین ہے؟ تو آپ نے فرمایا: (واضح یکسو دین [حنیف ])

اسے أحمد (2108) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے الصحيحة (881) میں صحیح قرار دیا ہے۔

امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الایمان کے اندر ایک باب قائم کیا ہے:

” دین بہت آسان ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب واضح یکسو دینِ [حنیف ]ہے”

دینِ ابراہیم کے کچھ باقیماندہ اثرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں پہنچ چکے تھے، اور اسوقت عرب میں بہت کم لوگ دینِ ابراہیم، دین حنیف کو اپنائے ہوئے تھے۔

چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل نے سچے دین کی تلاش میں شام کی جانب سفر شروع کیا، تو راستے میں ایک یہودی عالم ملا اور اس کے دین کے متعلق دریافت کیا اور کہا: مجھے آپ اپنے دین کے بارے میں کچھ بتلائیں شاید میں تمہارے دین میں داخل ہوجاؤں؟!

یہودی: ہمارے دین میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک آپ اپنے حصے میں آنے والا اللہ کا غضب نہ لے لیں!!

زید: میں اللہ کے غضب ہی سے بچنے کیلئے نکلا ہوں، اور میں اللہ کا غضب بالکل بھی نہیں لے سکتا، میں اسکی طاقت کہاں رکھتا ہوں!! مجھے آپ کسی اور کی طرف راہنمائی کروگے؟

یہودی: اسکے علاوہ مجھے صرف دینِ حنیف ہی کے بارے میں علم ہے۔

زید: یہ دینِ حنیف کیا ہے؟

یہودی: یہ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، وہ یہودی اور عیسائی نہیں تھے، وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔

یہ سن کر زید اسکے پاس سے چلے گئے اور راستے میں کسی عیسائی عالم سے ملاقات ہوگئی، اور اپنا مقصد بتلایا، تو عیسائی کہنے لگا:

ہمارے دین پر تم اس وقت تک نہیں آسکتے جب تک تم اپنے حصے میں آنے والی اللہ کی لعنت نہ لے لو!!

زید: میں اللہ کی لعنت ہی سے بچنے کیلئے تو بھاگا ہوں، اور میں اللہ کی لعنت نہیں لے سکتا، اور نہ ہی اسکا غضب لے سکتا ہوں، مجھ میں اتنی سکت کہاں؟! کیا مجھے کسی اور کے بارے میں راہنمائی کرسکتے ہو؟

عیسائی: اسکے علاوہ مجھے صرف دینِ حنیف ہی کے بارے میں علم ہے۔

زید: یہ دینِ حنیف کیا ہے؟

عیسائی: یہ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، وہ یہودی اور عیسائی نہیں تھے، وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔

چنانچہ جب زید نے دونوں کی باتوں میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر سنا تو باہر کی جانب چل پڑے جب باہر آئے تو دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے: “یا اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں!!”

[امام بخاری کہتےہیں کہ] لیث نے کہا کہ مجھے ہشام نے بواسطہ اپنے والد کے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں لکھا کہ وہ کہتی ہیں: میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ سے اپنی پشت لگائے کھڑا ہوا دیکھا وہ کہہ رہے تھے: “قریشیو! میرے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیم پر نہیں ہے”

زید بن عمر و موؤدة (یعنی وه نوزائیده لڑکی جسے زنده درگور کردیا جاتا تھا) کو بھی بچا لیتے تھے وه اس آدمی سے جو اپنی لڑکی کو قتل کرنے کا اراده کرتا یہ فرماتے کہ اسے قتل نہ کرو اور میں اس کا خرچہ برداشت کروں گا تو وه اسے (پرورش کے لئے) لے جاتے، جب وه بڑی ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تم چاہو تو میں یہ لڑکی تمہارے حوالہ کردوں اور تمہاری منشا ہو تو میں ہی اس کی پرورش کرتا رہوں گا۔

اسے بخاری (3828) نے روایت کیا ہے۔

مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر (13043)کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android