كيا يہ صحيح ہے كہ اسلام ايسى كمپنيوں اور اداروں ميں سرمايہ كارى كرنے سے منع كرتا ہے جو بغير كمى بيشى كے مقررہ تناسب ميں فائدہ ديتى ہيں؟
شرع ميں بنكوں كے فوائد سود كے نام سے موسوم ہيں
سوال: 12823
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دين اسلام وہ دين حق ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم لائے ہيں اور يہ دين مكمل اور سب شريعتوں سے زيادہ كامل ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
ميں نے آج تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا، اور تم پر اپنى نعمت پورى كردى ہے
تو اس طرح قرآنى شريعت ہر چيز كو شامل اور كامل ہے، اس ميں ہر وہ احكام ہيں جن ميں بندے كى معاشى اور اخروى سعادت ہے، اور ان احكام ميں مالى احكام بھى شامل ہيں، اور يہ احكام منظم ہيں اور مال كمانے اور اسے صرف كرنے كے متعدد طريقے ہيں، لہذا ہر طريقہ سے نہ تو مال كمانا جائز ہےاور نہ ہى انسان كى خواہش كے مطابق اسے صرف كرنا جائز ہے، بلكہ اس معاملہ ميں انسان كو اللہ تعالى كى شريعت كا مطيع ہونا ضرورى ہے، اوران ميں يہ بھى ہے كہ اللہ تعالى نے سود حرام قرار ديتے ہوئے فرمايا:
اللہ تعالى نے خريد و فروخت كو حلال كيا اور سود كو حرام كيا ہے
اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:
اے ايمان والو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو
قرض پر فائدہ لينا يا فائدہ دينا بھى سود كى ظاہرى صورتوں ميں سے ہے، لہذا فائدہ پر قرض حاصل كرنا جائز نہيں، اور بنكوں كى زبان ميں جو فائدہ سے موسوم ہے وہ شريعت كى زبان ميں سود كہلاتا ہے، اور قرض حسنہ وہ ہے جس كا مقصد دوسرے پر مہربانى اور احسان ہو، وہ اس طرح كہ قرض دينے كا مقصد فائدہ يا زيادہ رقم حاصل كرنا نہ ہو.
لہذا جو بنك كى زبان ميں قرض سے موسوم ہے وہ حقيقت ميں سودى معاہدے ہيں، اور پھر اللہ تعالى اپنى شريعت ميں بہت حكيم ہے اس ليے كہ اس نے ايسى شريعت نازل فرمائى ہے جس ميں جلدى اور دير والى مصلحتيں پائى جاتى ہيں، اور وہ اللہ تعالى بہت حكمت والا اور علم والا ہے .
ماخذ:
الشيخ عبد الرحمن البراك