ميں ايك متوسط خاندان سے تعلق ركھتا ہوں، اور چھٹيوں ميں بہت سخت كام كرتا ہوں تا كہ اپنے گھر والوں كى مالى معاونت كر سكوں، اور ميرى يہ ملازمت اور كام رمضان كے موافق ہو جاتى ہے، اور ميں اپنے كام اور روزے كو جمع نہيں كر سكتا، تو كيا كام جارى ركھ كر ميں رمضان كے روزے بعد ميں ركھ سكتا ہوں، برائے مہربانى مجھے اس كے بارہ ميں معلومات فراہم كريں .؟
كام كى بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہيں
سوال: 128398
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
" مومن پر واجب ہے كہ وہ جب رمضان المبارك آ جائے تو رمضان كے روزے ركھے، اور اگر وہ سخت كام كرتا ہے تو اسے روزہ كى بنا پر اپنے كام ميں تخفيف كر لينى چاہيے، وہ اس طرح كہ كام مناسب وقت يعنى دن كے شروع ميں كر لے، اور پھر اس كے بعد مشقت والا كام نہ كرے، تا كہ روزہ پورا كر سكے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے روزہ ركھنا فرض كيا ہے، اور اسے دين اسلام كے اركان ميں سے ايك ركن قرار ديا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلامى كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: يہ گواہى دينا كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور استطاعت ہونے كى صورت ميں بيت اللہ كا حج كرنا "
اس ليے ہر مسلمان پر اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا فرض ہيں، اور ہر اس چيز سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جو اس ماہ كے روزے ركھنے ميں مانع ہو، كام تو ختم ہى نہيں ہوتے، اور پھر كام كرنے كے ليے تو اور بھى بہت وقت ہيں.
مومن كے ليے يہ بھى ممكن ہے كہ وہ كام رات كو كر لے يا پھر دن كى ابتدا ميں كام كرے تا كہ اسے دوپہر كے وقت كام كرنے كى مشقت نہ كرنى پڑے.
مقصد يہ ہے كہ آپ ايسے اسباب پر عمل كريں جو آپ كے ليے روزہ ركھنے اور ايسے طريقہ سے كام كرنے ميں ممد و معاون ہوں، اور كام آپ كو نقصان نہ دے، آپ پر يہى واجب ہے، آپ كے ليے روزہ چھوڑنا جائز نہيں " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.
ماخذ:
فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب