ايك شخص نے اپنى بيوى كو ” تمہيں طلاق ” كہا اور ساس كو كہا كہ تمہارى بيٹى كو طلاق، اور جب سسر آيا تو اسے بھى كہا آپ كى بيٹى كو طلاق، پھر خاوند نے بيوى سے ر جوع كرنا چاہا تو كيا يہ ايك طلاق ہو گى يا تين طلاق ؟
بيوى كو طلاق دى اور سسر كو كہا كہ آپ كو بيوى كو طلاق ہے تو كيا دوسرى طلاق واقع ہو جائيگى ؟
سوال: 129356
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب آدمى اپنى بيوى كو كہے: ” تمہيں طلاق ” تو يہ ايك طلاق ہو جائيگى، اور اگر اس نے دوبارہ اس كى ماں كو كہا كہ آپ كى بيٹى كو طلاق اور پھر بيوى كو باپ كو كہا كہ آپ كى بيٹى كو طلاق تو اس ميں تفصيل ہوگى:
1 ـ اگر اس سے خاوند نے پہلى طلاق كى تاكيد چاہى يا پھر صرف ماں اور باپ كو طلاق كى خبر دينا چاہى اور دوبارہ طلاق كا ارادہ نہ كيا تو دوسرى اور تيسرى مرتبہ سے طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ يہ ايك ہى طلاق ہوگى، اس ليے اگر تو يہ پہلى طلاق ہو تو عدت كے اندر اندر اسے رجوع كا حق حاصل ہے.
2 ـ اور اگر وہ پہلى كے علاوہ دوسرى طلاق كا ارادہ كرے ـ اور بيوى ابھى عدت ميں ہو ـ تو اس ميں فقھاء كا اختلاف ہے.
جمہور كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ طلاق رجعى كى عدت گزارنے والى بيوى كے حكم ميں ہوتى ہے، اس ليے اسے طلاق ملحق ہوگى.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
” جمہور فقھاء ـ احناف مالكيہ اور شافعيہ اور حنابلہ كے يہى مذہب ہے ـ كے ہاں طلاق رجعى والى عورت كى عدت ميں طلاق ہو جائيگى، حتى كہ اگر كوئى شخص اپنى مدخولہ بيوى سے كہے كہ تمہيں طلاق، اور پھر اس كى عدت ميں اسے دوسرى طلاق ديتے ہوئے تمہيں طلاق كہا تو يہ دو طلاقيں ہونگى، جب وہ پہلى طلاق كى تاكيد نہ چاہتا ہو، اور اگر وہ اس پہلى طلاق كى تاكيد كرنا چاہتا ہے تو پھر دوسرى طلاق واقع نہيں ہوگى” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 12 ).
اہل علم كى ايك جماعت كا كہنا ہے كہ دوسرى طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ طلاق اس وقت ہوتى ہے جب اس كے درميان رجوع يا عقد ہو.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے ہى راجح قرار ديا ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 100 ).
اس بنا پر جب خاوند نے دوسرى اور تيسرى طلاق كے الفاظ پہلى طلاق كى عدت ميں بولے ہيں جس ميں اس نے اپنى بيوى سے رجوع نہيں كيا تو صرف پہلى طلاق واقع ہوئى ہے اور كوئى نہيں، اور اسے عدت كے اندر اندر رجوع كرنے كا حق حاصل ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب